کبھی کبھی پرانی باتیں دہراتی ہوئی اچھی لگتی ہیں۔ جب بینظیر کا پہلا دور تھا اور بیگم بھٹو سینئروزیربنیں۔ اسی زمانے میں نیلوفر علیم کا ڈرامہ ”شہ زوری“چل رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کو بہت پسند تھا۔ اسی زمانے میں نیلوفر کی شادی ہوئی۔ بیگم صاحبہ کوبھی بلایا گیا۔ بیگم صاحبہ نے نیلوفرکو منہ دکھائی میں کراچی نیشنل سنٹرکی ڈائریکٹرشپ عطا کر دی۔ وہ معصوم دفتری معمولات کو کیاجانے، اس کے شوہر نے دفتر میں بیٹھ کر دفتری معاملات اس کی جگہ چلانا شروع کردیئے۔ یہ سلسلہ کچھ عرصے چلا۔ پھروہ نوکری چھوڑ گئیں۔
مگربہت سے ایسے تھے جوکبھی بھی اس طرح کی نوکریاں لے کر چھوڑ نہیں گئے بلکہ آگے بڑھتے ہی گئے۔ ایک صاحب کومہربانی میں آ کربھٹوصاحب نے امریکہ میں فرسٹ سیکرٹری لگا دیا۔ آرڈر جاری ہوگئے۔ وہ صاحب گھبرائے گھبرائے اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری کے پاس گئے۔ بولے خدا کے لئے مجھے تھرڈ سیکرٹری لگا دیں۔ مجھے تو ٹھیک سے انگریزی بولنا بھی نہیں آتی ہے۔ بیچارے سیکرٹری نے کہا کہ بھٹوصاحب کی حکم عدولی کرنے کی مجھ میں جرأت نہیں۔ آپ خود ان سے آرڈر بدلوا لائیں۔ کسی کوبھی جرأت نہ ہوئی۔ وہ صاحب بہت اعلیٰ عہدے پر رہ کر ریٹائرہوئے۔ عیش کے ساتھ کراچی میں رہتے ہیں۔
بڑھاپے کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ پرانی باتیں پہلے یاد آتی ہیں اور وہ بھی یوں کہ اسی طرح کے فسانے دہراتے ہوئے ہر زمانے میں دیکھتے ہیں۔ جناب نوازشریف نے مہربان ہوکر اپنے ایک نزدیکی دوست کو ایک ادبی ادارے کا سربراہ مقرر کر دیا۔ بینظیر کے دوسرے دور میں جن صاحب کو ادبی ادارے کاسربراہ بنایا گیا انہوں نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ تمام تقریبات کی صدارت میں خود کروں گا۔
بہرحال یہ تو ماضی کے قصے ہیں۔ اب کیا ہورہاہے۔ سات فٹ چوڑی دیوار بنائی جارہی ہے جو کہ ریڈ زون قرارپائے گی۔ اتنی چوڑی دیوار پہ تو بابر بھی دو آدمیوں کو اپنی بغل میں لے کر دوڑ نہیں لگا سکا تھا۔ عام شہری اوربے چارے پولیس مین خودکش حملوں کی زد میں آتے ہیں تو آتے رہیں۔
ایک زمانے میں ملتانی مٹی، تختی پرپوچا دینے کے لئے بہت مشہو ر تھی۔ آج کل ملتانی مٹی ٹماٹر کے گودے میں ملا کر منہ پر لگانے کے لئے بہت مشہورہے مگر صرف ٹی وی پر… اسلام آباد میں ملتانی مٹی اسی طرح قبولیت کی سند حاصل کر رہی ہے جیسے بینظیر کے پہلے دور میں کوڑوں کی سند کام آتی رہی ہے۔بہت دورکی بات نہیں ایک عزیزی اسسٹنٹ کو او اینڈ ایم ڈویژن میں پرموٹ کرکے انڈکٹ کیا گیا۔ پھر اس کو انگلینڈ میں تھرڈ سیکرٹری لگایا گیا اور یہ سب کام ایک ہفتے کے اندر اندرہوا۔ اب وہ دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھا ہے۔اسی طرح کی بے شمار اسناد و ترقیات کے طلسم ہوشربا، کچھ کراچی کے حوالے سے ، کچھ سندھ کے حوالے سے اورپھر جوجو وزیر جس قدر ترقیات میں ماہر ہے۔ وہاں یہ کام نہیں آ رہا کہ آپ کے پاس ہنر یا لیاقت کیاہے۔ کام آ رہا ہے تو یہ کہ آپ کا تعلق کیاہے؟ ابھی تو سفرلمباہے۔ ابھی توبہت سی وزارتیں خالی ہیں۔ اپنے اپنے ممدوح اور پھران کے ممدوح کے انتظارمیں ان کے ممدوح۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ آخر راشدی صاحب کو سپیشل اسسٹنٹ بھٹوصاحب نے لگایا تھا۔ وہ چوتھی جماعت سے بھاگے ہوئے تھے مگر اتنے باعلم شخص تھے کہ ان کے لکھے نوٹ پر کبھی بھی بھٹو صاحب نے حرف زنی نہیں کی تھی بلکہ کہاکرتے تھے کہ راشدی صاحب خالد حسن اور حامد جلال کے علاوہ خوبصورت انگریزی لکھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ایک طرف وہ بھٹوصاحب کی طرف سے بیان تیار کرتے تھے تو دوسری طرف PNA کی طرف سے بھی وہی بیانیہ جواب تیارکرتے تھے۔پرویزمشرف کے زمانے میں ایک نئی طرح تنخواہوں کی پڑی تھی۔ ایم پی ون اورایم پی ٹو۔ بس پھر کیا تھا جو بھی چہیتا بھرتی کیاگیا بڑے بوڑھوں کوگھر سے بلاکرپوسٹنگ دی گئی۔ سب کے سب تین لاکھ اور سوا لاکھ کے تھے اور وہ روایت بڑی باقاعدگی سے اب بھی چل رہی ہے۔ خزانہ خالی ہے توکیاہوا، افراط ِزر ہے توکیاہوا، بینظیرکی شہادت پہ گڑھی خدا بخش گئے تھے یا نہیں، توکیا ہوا۔ اس وقت جس کی بھی چال چل گئی وہ سربراہ۔ کہاں کا ٹیلنٹ اور کہاں کا تجربہ۔ تم ہوئے دوست جومیرے ہوئے۔
اپنی اپنی رفاقتوں کی فہرستیں بنی ہوئی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اوپر چڑھنے کے لئے کسی گورنر اورکسی اورصاحبِ کرامات کی سیڑھی میسر آجاتی ہے۔ یہ کوئی آج کاوطیرہ نہیں۔ چاہے ایوب خان کازمانہ ہو کہ پرویزمشرف کہ آج کے حاکم اعلیٰ، سند یہ ہے کہ ہم سے رفاقت رکھو گے توصاحب ِ علم و استطاعت کہلاؤ گے۔ملتان سے لاہور کے سماجی اورسیاسی حالات کی جانب رخ کرو تو بہت سے نئے نقشے نظر آتے ہیں۔ شہبازشریف ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرکے دکھانے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کمشنری نظام بحال کردیاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر جگہ دو روپے کی روٹی مل رہی ہے۔ میرا دل کیاکہ میں اسلام آباد پچاس روٹیاں لے جاؤں مگر پھروہی خیال دامن گیر ہوا کہ پنجاب سے باہر آٹے اورگندم کی نقل و حمل پہ شاید پابندی ہے۔ اس لئے ہاتھ کھینچ لیامگرلاہوریوں کی قسمت پہ رشک آیا کہ کیاگرم روٹی دوروپے میں کھا رہے ہیں جبکہ ہم اسلام آباد والوں کو وہی روٹی پانچ روپے میں مل رہی ہے۔
ہر چند لاہور میں بھی بہت اہم نوکریاں نورِ نظر کی جھولیوں میں پڑ رہی ہیں مگرایسا توامریکہ جیسے ملک میں بھی ہوتا ہے کہ الیکشن میں پوری ذمہ داری سے کام کرنے والوں کو ایک طرح سے شیڈو کیبنٹ کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ایساہی پاکستان میں اندرخانی ہورہاہے۔ جو جومسیحا رہا یا نیویارک میں دوست رہا وہ قربتوں کی منزلیں طے کررہا ہے۔ ایک صاحب جو میڈیا میں خود کو ارسطو سمجھتے ہیں ان کے پروگرام کا اشتہار آتا ہے کہ صبح چھ بجے دیکھئے جبکہ اخبار، سب گھروں میں آٹھ بجے آتا ہے۔ ایسے ایسے لطیفے سامنے ہو رہے ہیں کہ کئی دفعہ سوات سے آنے والی ہیلی کاپٹرکی آوازیں دب جاتی ہیں۔
لو گوں نے ویف اور سول سوسائٹی کو تو بیگمات کے کھاتے میں ڈال دیا تھا اب یہ تو گولی مارسے لے کر کوٹ لکھپت کی عام عورت اور مرد سڑک پر نکل کر بجلی کے بل جلا رہے ہیں او ر روتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ بل کہاں سے دیں۔ ان کو سول سوسائٹی کے شعور سے کیسے الگ کریں گے۔ پہلے پانچ سال ایک بنکر تھا اب اگلے پانچ سال کے لئے ایک اوربنکر کو سامنے لایا جارہا ہے۔ ہیں وہی ڈھاک کے تین پات۔ وہی 120روپے کلو دال اورچالیس روپے کلوگوبھی جبکہ سوات والے کہہ رہے ہیں ہمارے ٹماٹرسڑ رہے ہیں، سیب ضائع ہورہے ہیں، مکئی کی فصل کب کی پک چکی ہے مگرہم کہاں لے کرجائیں، کیسے پیسے کمائیں، ہم نے دیکھ کیا اویس غنی صاحب تو اپنی بیچارگی ظاہر کر چکے ہیں، ہوتی صاحب ابھی کم عمر ہیں اپناووٹ میڈیا کو دکھاتے ہوئے، معصوم لگتے ہیں۔ میرے ملک کے یہ مسائل کون حل کرے گا!