28/اکتوبر کو بس ایک دن باقی ہے۔ اس روز سپریم کورٹ کے 17500 وکلاء، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مرکزی عہدیداروں کا انتخاب کریں گے۔ کل ایک چھوٹی سی محفل میں بیٹھے ہوئے میں نے ایک نکتہ رس وکیل دوست سے پوچھا ۔ ”صدارت کیلئے کن کے درمیان مقابلہ ہے ؟“ اس نے کمال سنجیدگی سے کہا ”مشرف اور افتخار چوہدری کے درمیان“۔ سب حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے تو وہ مسکرایا اور بولا ”بظاہر تو علی احمد کرد اور ایم ظفر اس عہدے کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اب کے بلوچستان کی باری ہے لہٰذا دونوں کا تعلق بلوچستان سے ہے لیکن وکلاء اسے افتخار چوہدری بمقابلہ پرویز مشرف ہی خیال کرتے ہیں“۔
میں سوچ میں پڑ گیا۔ افتخار چوہدری اور پرویز مشرف۔ دو فرد، دو کردار، دو علامتیں، دو فلسفہ ہائے حیات، دو نقطہ ہائے نظر۔ یہ مقابلہ بھی کوئی مقابلہ ہے؟
واقفان حال بتاتے ہیں کہ مواخذے کے خوف سے فرار کی راہ اختیار کرنے والے سابق صدر، اکثر سرد شاموں کی سرد مہری سے رنجیدہ، بھیگتی رات کی اداس ساعتوں میں فون اٹھاتے، کسی ہمدم دیرینہ کا نمبر ملاتے، حال احوال پوچھ کر اپنے اندر کے سناٹوں کو بہلاتے اور پھر اچانک کھانے یا چائے کی فرمائش کرتے ہیں۔ کسی رات جب شہر اونگھ رہا ہوتا ہے وہ دبے پاؤں اپنی سیکورٹی کے ہمراہ نکلتے، زور زبردستی کی میزبانی سے لمحاتی راحتیں کشید کرتے اور رات ڈھلے اپنے گھر واپس آجاتے ہیں۔ ہجر کی آنچ تیز کرنے اور وصل کی تمنا جگانے والے اکتوبر کے وسط میں وہ لاہور گئے۔ دوستوں کے ہاں محفلیں آراستہ کیں، نغمہ و رنگ کی جوت جگائی، عہد رفتہ کو آواز دی۔ حلقہ احباب کی سرخوشی، ماحول کی سرمستی اور معطر فضا کی سرشاری میں بھول جانا چاہا کہ اب پاکستان ان کے پنجہ ستم میں نہیں رہا لیکن دو دن بعد واپس آئے تو وہی کاٹ کھانے کو دوڑنے والی ویرانیاں ان کی منتظر تھیں۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بڑی بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
روز مرنے اور روز جینے کے آزار سے آزاد ایک مرد طرحدار بھی اسی دیار کا باسی ہے۔ نیم سوختہ میریٹ ہوٹل کے سامنے ججز کالونی کی طرف اٹھتی، بل کھاتی سڑک کے کنارے ایک گھر کے اندر جسٹس افتخار محمد چوہدری مقیم ہے جس کے چہرے پر ہلکی سی گرد ملال بھی نہیں۔ جس کے انگ انگ سے دائمی آسودگی پھوٹتی رہتی ہے اور جو کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ ہر آن، نہال، شانت، شاد، آباد، پرباش اور مسرور۔ جیسے وقت اس کی مٹھی میں ہو اور موسم اس سے اذن سفر لے کر قدم اٹھاتے ہوں۔
کل بیٹھے بٹھائے میرا دل بوجھل سا ہوگیا اور میں مغرب کے ذرا بعد فون کرکے جسٹس صاحب کے ہاں چلا گیا۔ وہ کمال شفقت سے مجھے لے کر ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے۔ کمرے کی مغربی دیوار پر خوبصورت نقش و نگار سے مرصع خطاطی کا ایک نمونہ آویزاں تھا اور قرآن بول رہا تھا۔ ”بے شک اللہ ہی مشرقین اور مغربین کا مالک و مختار ہے“۔ عین سامنے لکڑی کی کارنس سے ذرا اوپر لگے بڑے سے فریم میں اسم ربانی رقم تھا۔ ”القدوس“۔ کمرے میں بیٹھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس شخص کی بہادری کا سرچشمہ کیا ہے اور کس طاقت کے بل بوتے پر اس نے بپھرے ہوئے آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔ ”تم جو چاہو کرلو، میں استعفیٰ نہیں دوں گا“۔ گفتگو کے دوران جانے کس مرحلے پر میں نے کہا۔ ”جسٹس صاحب دیکھئے! اس افتاد سے قبل تو ہماری شناسائی بھی نہ تھی…“ افتخار چوہدری جو کرسی سے پشت لگائے ہوئے تھے، یکدم سیدھے ہوکر بلکہ تن کر بیٹھ گئے اور بولے۔ ”صدیقی صاحب! آپ اسے ”افتاد“ کہتے ہیں؟ یہ افتاد کہاں سے ہوئی؟ یہ تو اللہ کی طرف سے اس قوم کیلئے بیش بہا عطیہ ہے۔ بتائیے اس سے پہلے وکلاء نے کب ایسے بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا؟ اس سے پہلے کب عوام عدلیہ کی آزادی کے لئے یوں سڑکوں پر آئے تھے؟ اس سے پہلے لوگوں نے کب انصاف کی سربلندی کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں؟ اس سے پہلے کب آئین و قانون کی بالادستی کے لئے اتنی طویل تحریک چلی تھی؟ اس سے پہلے کب میڈیا نے ایک زبان ہوکر آزاد عدلیہ کا مطالبہ کیا تھا؟ یہ میرا یا کسی اور شخص کا مسئلہ ہے ہی نہیں، اصول اور نظریے کی بات ہے۔ اللہ کے فضل سے قوم اس میں سرخرو رہی ہے۔ آپ دیکھتے جائیے۔ اس تحریک سے کیسے کیسے چمنستان لہلہاتے ہیں“۔
سیاہ کرتے اور سفید شلوار میں ملبوس ایک سادہ سا شخص میرے سامنے بیٹھا تھا۔ رنگ و نور اور نغمہ و سرور کی محفلوں سے بے نیاز لیکن شاداں و فرحاں۔ میں سوچنے لگا۔ اگر یہ چیف جسٹس رہتا یا اب بھی ہوتا، اگر 9مارچ اور 3نومبر ہماری تقویم سے خارج ہوجاتے تو کیا ہارورڈ یونیورسٹی اسے نیلسن منڈیلا کا درجہ دیتے ہوئے فریڈم ایوارڈ سے نوازتی؟ کیا معتبر عالمی پینل اس کا نام ”نوبل پرائز“ کے لئے تجویز کرتا اور وہ پونے دو سو کی فہرست شارٹ لسٹ ہونے کے بعد چوتھے نمبر پر ہوتا؟ کیا نیویارک بار ایسوسی ایشن اسے تاحیات رکنیت کا اعزاز دے کر خوشی محسوس کرتی؟ کیا وہ ایسا مرتبہ و مقام حاصل کرنے والا پہلا ایشیائی بن پاتا؟ ایسے لوگوں کی قدر و قیمت کو سکہ رائج الوقت کے ترازو میں تولا ہی نہیں جاسکتا۔ وہاں کسی نادیدہ جہاں کی بے نام سی کرنسی چلتی ہے۔ وہاں کا اسٹاک ایکسچینج بھی مختلف ہے جہاں حصص کی قیمت کبھی نہیں گرتی۔ میں نے افتخار چوہدری کی طرف دیکھا جس کی جھولی زرمبادلہ کے ذخائر سے چھلک رہی تھی اور جس کے پاس پڑوس کی منڈی میں مندا ہی مندا تھا۔
افتخار چوہدری کا پرویز مشرف سے کیا مقابلہ؟
علی احمد کرد کے قافلے میں اعتزاز احسن، حامد خان، منیر اے ملک، طارق محمود اور سردار عصمت اللہ جیسے اہل جنوں ہیں اور سامنے کھڑی سپاہ میں لطیف کھوسہ، فاروق ایچ نائیک، بابر اعوان، اور ملک محمد قیوم جیسے لشکری ہیں۔ ساڑھے سترہ ہزار وکلاء کو ووٹ نہیں دینا، تاریخ رقم کرنی ہے۔ انہیں وقت کی عدالت میں گواہی دینی ہے کہ وہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے فرزند ہیں اور ان کے فکری شجرہ نسب کا آئین و قانون کے کسی غارتگر سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ ووٹ دیتے وقت وہ 12مئی کے شہداء کو کیسے بھول پائیں گے؟ چیمبرز میں بھسم ہوجانے والے رفیقوں کی پاکباز روحوں سے کیسے منہ موڑ لیں گے؟ لاافسری کی ترغیب ہو یا جج بنائے جانے کا لالچ، کروڑوں کی گرانٹس ہوں یا بے کراں مراعات، کالے کوٹ والا کون ہوگا جو جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بکسے کو نظرانداز کرکے اپنے ووٹ کی پرچی پرویز مشرف کی صندوقچی میں ڈالے گا؟ علی احمد کرد اور ایم ظفر کے مقابلے کو افتخار محمد چوہدری بمقابلہ پرویز مشرف قرار دینے والے نکتہ رس وکیل کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا۔ محفل میں سے کسی نے سوال کیا تو وہ چٹک کر بولا ”پارٹی“ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
ہمارا ووٹ ہمارے ضمیر کی امانت ہے اور اپنی تاریخ کے اس موڑ پر امانت میں خیانت کا مطلب آمریت کے گلے میں ہار ڈالنا اور آزاد عدلیہ کی پیٹھ پر کوڑے برسانا ہوگا“۔
رات کے سوا نوبج رہے تھے۔ میں ججز کالونی سے نکلا اور یکے بعد دیگرے کئی ناکوں سے ہوتا ہوا اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ پر پہنچا تو لوڈ شیڈنگ کا مارا ہوا شہر نیم جاں پڑا تھا۔ شیشہ نیچے کرتے ہی، مارگلہ کی شادابیوں کا لمس لئے ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے نے مجھے بوسہ دیا۔ میں پھر سوچ میں پڑ گیا۔ افتخار چوہدری اور پرویز مشرف… دو فرد، دو کردار، دو علامتیں، دو فلسفہ ہائے حیات، دو نقطہ ہائے نظر۔ یہ مقابلہ بھی کوئی مقابلہ ہے؟