• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ اس کےدرجات بلند کرے وہ حکمرانوں اور ایوانوں تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹاتا رہا، وہ چاہتا تھا کہ ایک ایسی اکیڈیمی قائم کی جائے جس میں نوجوانوں کو تربیت دے کر دنیا میں ملک کا نام روشن کیا جائے اور دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر سبز ہلالی پرچم لہرایا جائے، لیکن نہ ہی موت نے اس کو مہلت دی اور نہ ہی کسی حکمراں نے اسکا ساتھ دیا، سیاسی وعدے ضرور کئےگئے ، حسن سدپارہ جس نے اپنے کیئریئر کا آغاز ایک پورٹر کی حیثیت سے کیا تھا ، وہ دوسرے ممالک سے آنے والے کوہ پیمائوںکے ساتھ ان کا سامان اٹھا کر پاکستان میں موجود بلند چوٹیوں کو سر کرنے میں ان کی معاونت کرتا، غیر ملکی اس کی پھرتی اور چابک دستی کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتے، اور اسے کہا کرتے تھے کہ تم تو خود ایک زبردست کوہ پیما ہو، لیکن حسن سدپارہ اپنی آمدنی کے اس ذریعے کو قائم رکھتے ہوئے آگےبڑھتا رہا، وہ روٹین کے پورٹرز کے مقابلے میںہائی ایلٹی چوڈ پورٹر ( High Altitude)تھا، جو ایک جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی پیٹھ پر سامان لاد کر بیس کیمپ سے بھی اوپر بلندی تک جانا ہوتاہے ، حسن گلگت بلتستان سے کچھ فاصلے پر واقع سدپارہ کے علاقے کا رہنے والا تھا، اور سدپارہ کا علاقہ بھی بلندی پر واقع ہے اور یہاں کے رہنے والے محنت کش اور مضبوط جسموں کے مالک ہوتے ہیں، ہائی ایلٹی چوڈ پورٹر (High Altitude) کی حیثیت سے کام کرتےہوئےاپنے اس شوق کو بھی پالتا رہا کہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرتےہوئے وہاں قومی پرچم کو لہرائے اور پھر اس نے اپنے اس شوق اور عزم کو پورا کرتےہوئےپہلے پاکستانی کا اعزاز حاصل کیا جس نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے علاوہ کے ٹو، گاشوربم I( Gashurbum I)، گاشور بم II ( Gashurbum II) ، نانگا پربت اور براڈ پیک کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا، کوہ پیمائی نہ صرف ایک مہنگا ترین شوق یا کھیل ہے بلکہ خطرات سے پر ہے ،کوہ پیمائی کرنے والوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ جلد بوڑھے ہوجاتے ہیں اور انہیں مختلف بیماریاں بھی گھیر لیتی ہیں ،سانس کی تکلیف آ لیتی ہے ، فراسٹ بائیٹ کی وجہ سے انگلیاں تک کٹ جاتی ہیں لیکن حسن سدپارہ بیچارہ ان ساری بیماریوں سے تو بچا رہا لیکن خون کے کینسر کے جان لیوا بیماری سے نہ لڑ سکا اور اس کی زندگی برف کے ایک تودے کی مانند موت کی وادی میں گم ہوگئی جس کےنیچے آکر زندگی بچانا ناممکن ہوتا ہے ، حسن سد پارہ کو ایک اور انفرادیت بھی حاصل تھی کہ وہ تین چار ہزار میٹرز کی بلندی سے اوپر جاکر بھی آکسیجن ماسک نہیں پہنتا تھا، حالانکہ اس بلند ی سے اوپر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس لینا محال ہوتاہے ، لیکن حسن سدپارہ کو قدرت نے یہ صلاحیت دے رکھی تھی کہ وہ آکسیجن کی کمی کے باوجود آکسیجن ماسک کا سہارا لئے بغیر بلندیوںپرچڑھتاجاتااور اس نے کئی چوٹیاں بغیر آکسیجن ماسک کے سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا ، حسن سدپارہ کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا لیکن اس کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کا وہ حقدار تھا ، اسے سرکاری ملازمت کے محض لارے ہی میں رکھا گیا ، بلکہ گزشتہ دور میں صدارتی حکم کے باوجود اسے قومی ایئر لائن جس کو لوٹ کر کھایا جاچکا ہے ، وہاں ایک قومی ہیرو کو صدارتی حکم کے باوجود ملازمت نہ مل سکی اس سے گھر کا وعدہ کیا گیا لیکن وہ گھر کے چھت کی آس لئے کفن کی چادر اور مٹی کی چھت تلے ابدی نیند سو چکا ہے ۔
ہمارے قومی کھلاڑیوںنے دنیا میں جتنا پاکستان کا نام روشن کیا ہے شایدہی کسی دوسرے شعبے کو یہ اعزاز حاصل ہواہو، اسکواش، کرکٹ، ہاکی، اسنوکر میں ہم ورلڈ چیمپئن بنے ، بلکہ ہمارے کھلاڑیوں کا کھیل دیکھنے کےلیے دوسرے ممالک کے لوگ بھی انتہائی چاہت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر ہم اپنے ہیروز کو وہ مقام نہیں دے سکے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں ، ہم حسن سدپارہ کو بھی وہ مراعات نہ دے سکے جو اس کا حق تھا، مرتے وقت یا مرنے کے بعد ان کھلاڑیوں کی خدمات کا اعتراف بھی اچھا اقدام ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی زندگیوں میں انہیں مراعات، انعامات اور خوب پذیرائی دی جائے کیونکہ ہیروز روز روز نہیں پیدا ہوتے۔


.
تازہ ترین