• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی سے مخدوم امین فہیم اور ڈھاکا سے جماعت اسلامی کے علی احسن مجاہد اور (خالدہ ضیاءکی) بی این پی کے صلاح الدین قادر کی پھانسی کی خبر آئی اور اُداس کرگئی۔ خودغرضی، نفسانفسی اور بوالہسی کے دور میں یہ تینوں خلوص و وفا اور استقامت و عزیمت کی تابندہ مثال تھے۔ نواب زادہ صاحب شعر پڑھا کرتے تھے
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے، جہاں ہوتا ہے
اہلِ دِل کے لئے سرمایۂ جاں ہوتا ہے
ہم نے برسوں پولیٹیکل رپورٹنگ کی۔ اکثر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ رابطہ رہا، نواب زادہ صاحب سمیت بعض کے ساتھ احترام و محبت کا تعلق بھی قائم ہوا لیکن مخدوم صاحب اُن میں نہیں تھے۔ ہم 1998ء میں جدہ سدھار گئے، اس وقت تک ہماری صحافتی تگ و تاز کا مرکز لاہور تھا۔ کبھی اسلام آباد جانا ہوتا۔ پارلیمنٹ اِن سیشن ہوتی، تو ادھر کا پھیرا بھی لگا لیتے۔ تب مخدوم صاحب کے ساتھ راہداری میں علیک سلیک ہوجاتی۔ دو تین بار پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں، کچھ صحافی دوستوں کے ساتھ، اِن سے ملاقات رہی۔ چند منٹ کی ملاقات بھی اُن کی شرافت اور وضعداری کا گہرا نقش چھوڑ جاتی۔
ابوالکلام آزاد کا یہ فقرہ سینکڑوں بار دُہرایا جاچکا کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا، خورشید ندیم نے اس ’’مصرعِ طرح‘‘پر گِرہ لگائی، ابوالکلام آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی لیکن اس دور میں بھی ، جب بازارِ سیاست میں وفا اور شرم وحیا جنسِ کم یاب ہوچکی، مخدوم امین فہیم کے ہاں یہ دولت خاصی فراواں تھی۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کا تاسیسی کنونشن ہالا میں مخدوم طالب المولیٰ کے ہاں منعقد ہوا تھا۔ مخدوم صاحب کے تیس اکتیس سالہ صاحبزادے نے، جو شعر وادب کا اعلیٰ ذوق رکھتا تھا اور امین فہیم کے نام سے سندھی میں شاعری بھی کرتا، بھٹو صاحب اور اُن کی پیپلزپارٹی سے پیمانِ وفا باندھا اور اسے تادمِ آخر نبھایا۔ اس دوران اپنوں کے ہاتھوں بھی چِرکے لگے، لیکن اس نے آہ نہ کی اور لبوں کو سیئے رکھا کہ اس کے نزدیک یہ دل لگی کا نہیں، عشق کا معاملہ تھا۔
بلاول نے گزشتہ دِنوں ذوالفقار مرزا کے بدین میں اپنی شہید والدہ کے بے وفا’’انکلز‘‘ کی بات کی تھی۔ ان میں وہ بھی تھے جن پر بھٹو صاحب بے پناہ اعتماد کرتے ۔ پی این اے کے ساتھ مذاکرات میں بھی، بھٹو صاحب نے اپنی مذاکراتی ٹیم کے لئے ان کا انتخاب کیا تھا لیکن مشکل وقت آیا تو انہوں نے آنکھیں پھیرنے میں دیر نہ کی۔ آزمائشوں کے اُس سفر میں مرنجاں مرنج جتوئی کچھ دُور ساتھ چلا اور پھر اس نے بھی اپنی راہ لی، اقتدار کے ایوانوں کی طرف جانے والی راہ۔کہا جاتا ہے ، وزارتِ عظمیٰ ہر بڑے سیاستدان کا خواب ہوتا ہے۔ مخدوم صاحب نے بھی یہ خواب دیکھا ہوگا لیکن انہوں نے اِسے دل میں بسایا ، نہ اپنی جان کا روگ بنایا۔
انہیں وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش ہوئی ، لیکن بے وفائی کی قیمت پر انہیں یہ قابلِ قبول نہ تھی۔ ڈکٹیٹر کی عمران خان کے ساتھ سودے بازی کی بیل منڈھے نہ چڑھی۔عمران کی بائیوگرافی Imran vs Imran کے مطابق وہ قومی اسمبلی کی 100نشستوں پر اصرار کررہا تھا، لیکن جنرل احسان الحق نے یہ کہتے ہوئے اس کا مضحکہ اڑایا کہ پاکستان کے عوام خواب میں بھی یقین نہیں کریں گے کہ ایک ناتجربہ کار پارٹی اپنے بل بوتے پر 100نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ جنرل اِسے سمجھا رہا تھا کہ اس کے لئے 40نشستیں کافی ہیں۔ ان ہی کی بنیاد پر اسے پاکستان کا آئندہ وزیراعظم بنادیا جائے گا۔ 23- 24 جولائی 2002کو آخری مرتبہ بات کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف نے عمران کو بلایا۔ حامد خان اور احسن رشید (مرحوم) سمیت تحریکِ انصاف کی سینٹرل ایگزیکٹو کے قریباً 6ارکان بھی ایوانِ صدر پہنچے لیکن یہ ملاقات بھی بے سود رہی۔
ڈکٹیٹر کی خودنوشت’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ کے مطابق، اس نے اپنی سیاسی ضرورت کے لئے چوہدریوں کے ذریعے قاف لیگ تخلیق کی لیکن اکتوبر2002کے عام انتخابات میںایجنسیوں کی بھرپور سپورٹ کے باوجود قاف لیگ سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی کہ اپنے بل بوتے پر حکومت بناسکے۔ قانونی مجبوریوں کے تحت بینظیر بھٹو کی تین ’’P‘‘ والی پاکستان پیپلزپارٹی کی بجائے یہ چار ’’P‘‘ والی پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز تھی ، جس نے مخدوم امین فہیم کی قیادت میں الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ تب ڈکٹیٹر نے مخدوم صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی لیکن اس کے لئے بھٹو کی بیٹی سے بے وفائی شرط تھی۔ مخدوم کو ’’عزتِ سادات‘‘ کی قیمت پر یہ سودا منظور نہ تھا، چنانچہ ڈکٹیٹر نے مخدوم کی پارٹی میں نقب لگائی، اس میں ایک درجن سے زائد ’’پیٹریاٹس‘‘ تخلیق کئے، اور ان کی تائید کے بعد بھی ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن سکے۔
مخدوم امین فہیم پر محترمہ کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے مشرف کے ساتھ سلسلۂ جنبانی کے لئے انہی کو ذریعہ بنایا۔ اکتوبر2007میں مشرف کے (باوردی) صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل این آر او کو حتمی شکل دینے کے لئے محترمہ نے لندن سے مخدوم صاحب ہی کو بھیجا تھا۔ مشرف کے ساتھ ان کے تعلقات رہے لیکن اس میں انہوں نے محترمہ کی طے کردہ ریڈ لائن کو کبھی عبور نہ کیا۔ 27دسمبر 2007کو لیاقت باغ میں محترمہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوئیں تو امین فہیم گاڑی میں ان کے ساتھ تھے۔
آصف زرداری نے فروری 2008کے عام انتخابات سے قبل مخدوم صاحب کو پیپلزپارٹی کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا اُمیدوار ’’نامزد‘‘ کردیا تھا لیکن وقت آیا تو ’’مردِ حر‘‘ کی ترجیح یا سیاسی ضرورت بدل گئی۔ اسی دوران خواجہ آصف کا بیان آیا، انہوں نے مخدوم صاحب کو مشرف سے تعلق کی بنا پر وزارتِ عظمیٰ کے لئے ناقابلِ قبول ٹھہرایاتھا۔ قرعۂ فال ملتان کے گیلانی کے نام نکل آیا۔ ’’ایک دِن جیو کے ساتھ‘‘ میں مخدوم صاحب کا کہنا تھا ، زرداری صاحب سرعام اعلان کرچکے تھے، اب ان کی جگہ کسی اور کا انتخاب ان کے لئے سُبکی کا باعث تھا۔ اس پر صدمہ فطری تھا، لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ (جسے یار لوگوں نے ناراضی پر محمول کیا)۔ یہاں انہوں نے دلچسپ بات بتائی، رضاربانی کے کمرے میں میٹنگ تھی۔ یہاں خواجہ آصف بھی آئے لیکن وہ مخدوم صاحب سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ مخدوم نے خواجہ کی مُشکل آسان کردی، بازو کشادہ کئے ان کی طرف بڑھے اور گلے لگا لیا۔ زرداری ، گیلانی دور میں اسکینڈلز کا طوفان اُٹھا تومخدوم صاحب بھی اس کی زد میں آئے۔ ان کے خلاف اسکینڈلز چھانپنے والا اخبار نویس، ہمارا دوست، گزشتہ شب کہہ رہا تھا، اس کے باوجود مخدوم صاحب جب بھی ملے، جہاں بھی ملے، انہوں نے کبھی گِلہ نہ کیا۔ ان کی وضعداری میں ذرہ برابر فرق نہ آیا تھا۔ اس مردِ وفاشعار اور وضعداری کی رحلت پیپلزپارٹی ہی کا نہیں، پاکستان کی قومی سیاست کا بھی بڑا نقصان ہے۔
تازہ ترین