• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ یہ باتیں یا یہ افواہ کن لوگوں نے پھیلائی ہے، اور کیوں پھیلائی ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ ہمارے ہاں وہ محفلیں ختم ہو گئیں جہاں علمی بحث مباحثے ہوا کرتے تھے۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب پطرس بخاری، صوفی غلام مصطفےٰ تبسم، سید عابد علی عابد، امتیاز علی تاج یا فیض صاحب جیسے علما و فضلا اکٹھے ہوتے تھے اور ادب، فلسفہ اور فنون لطیفہ پر عالمانہ اور فاضلانہ گفتگو ہوا کرتی تھی بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اب تو سنجیدہ گفتگو کا فن ہی ناپید ہو گیا ہے۔ پچھلے سال لاہور لٹریچر فیسٹیول میں اسی موضوع پر ایک مذاکرہ ہوا۔ اس مذاکرے میں انتظار حسین، کشور ناہید اور ڈاکٹر آصف فرخی شرکت کر رہے تھے۔ اب اسے بدقسمتی کہہ لیجیے یا خوش قسمتی کہ ہم اس مذاکرے کے میزبان تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ جو ہم بڈھے ٹھڈے اکٹھے ہو کر رونا دھونا شروع کردیتے ہیں کہ ہائے، وہ زمانے ختم ہو گئے، اور وائے وہ محفلیں اجڑ گئیں جو ان بزرگوں کے دم قدم سے زندہ تھیں، انہوں نے کبھی یہ غور کرنے کی زحمت بھی گوارا کی کہ بزرگوں کی محفلیں تو ان کے ساتھ چلی گئیں، لیکن بحث مباحثے کی مجلسیں اور محفلیں آج بھی موجود ہیں۔ صرف انہوں نے اپنی شکل بدل لی ہے اور ان کی نوعیت تبدیل ہو گئی ہے۔ ہم آج کی اس نسل کی ہی بات نہیں کر رہے ہیں جس نے اپنے اظہار کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ہم تو پروفیسر امین مغل اور لیاقت علی ایڈووکیٹ جیسے اپنی نسل کے لوگوں کی بھی بات کر رہے ہیں جو نہایت سنجیدہ مباحث کے لئے فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ امین مغل لندن میں بیٹھے ہیں لیکن وہ ہماری ہر علمی ادبی اور سیاسی بحث میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ان جیسے اور بھی صاحب علم وفن ہیں جو نئی نئی بحثیں بھی چھیڑتے رہتے ہیں۔ نئی نسل کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کبھی کبھی وہ ان مباحث میں آپے سے باہر ہو جاتی ہے لیکن وہی نسل سنجیدہ موضوعات پر نہایت متانت کے ساتھ گفتگو بھی کرتی ہے۔ یہ گفتگو اور یہ مباحث فیس بک اور ٹویٹر جیسے ذرائع پر چلتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی شخص کو بھی فیس بک وغیرہ پر دنیا بھر میں کہیں بھی کسی موضوع پر کوئی قابل ذکر مضمون نظر آتا ہے تو وہ اسے فیس بک یا ٹویٹر کے ذریعے دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔ پھر اس پر تبصرے اور بحث مباحث شروع ہو جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے، ایسا پہلے کب ہوتا تھا۔ چلیے اسے بھی جانے دیجیے، ذرا اپنے اردگرد ہی دیکھ لیجیے۔ آج بھی ایسے مقامات موجود ہیں جہاں ہر ہفتے چند سرپھرے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر وہاں گفتگو نہ کی جاتی ہو۔ حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنّفین کے ہفتہ وار اجلاس اب بھی پابندی کے ساتھ ہو رہے ہیں اور حلقہ ارباب فنون کے ماہانہ اجلاس بھی ہو رہے ہیں۔ اور پھر اب تو ادبی میلے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ادبی میلے یا ادبی جشن شہر شہر اور قریہ قریہ منائے جا رہے ہیں۔ ان میں کھیل تماشہ نہیں ہوتا بلکہ علمی اور ادبی بحثیں ہی ہوتی ہیں۔ آخر ہم رونا دھونا ہی کیوں مچائے رکھتے ہیں؟ تو صاحب، لاہور لٹریچر فیسٹیول میں ہم نے یہ باتیں کر تو دی تھیں مگر اس پر کچھ لوگ ہم سے ناراض بھی ہو گئے تھے ۔اب یہی دیکھیے کہ پچھلے دنوں شمس الرحمٰن فاروقی الٰہ آباد سے لاہور آئے ہوئے تھے۔ لاہور میں جس طرح انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ ادب سے شغف رکھنے والے علمی گفتگو سننے کے لئے کتنے بے چین رہتے ہیں۔ فاروقی صاحب گنتی کے ان چند اصحاب میں سے ہیں جو ادب کی ہر صنف پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔ وہ نقاد ہیں، محقق ہیں، شاعر ہیں اور ناول و افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے اردو کے قدیم شاعروں پر جو افسانے لکھے ہیں ان افسانوں نے کہانی نویسی کے فن پر ان کی بے پایاں قدرت ثابت کردی ہے۔ اور پھر ان کا ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کی تو اردو میں دوسری کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔ جدیدیت اور جدید ادب پر انہوں نے جتنا کام کیا ہے کسی اور نقاد نے نہیں کیا۔ فاروقی صاحب کو اردو کے ساتھ انگریزی پر بھی قدرت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے ناول کا انگریزی ترجمہ بھی خود ہی کیا ہے۔ اور انگریزی والے مانتے ہیں کہ بہت ہی خوب ترجمہ کیا ہے۔ فاروقی صاحب اپنی صاحب زادی مہر افشاں فاروقی کے ساتھ لمز کی دعوت پر لاہور آئے تھے۔ لیکن حالت یہ تھی کہ صبح ایک محفل میں ہیں تو سہ پہر کو دوسری محفل میں اور رات کو تیسری محفل میں۔ ایک طرف وہ لمز میں’’ادب کیوں؟‘‘ اور ’‘غزل کی تہذیب پر‘‘ بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف جی سی یونیورسٹی میں ادب پر محاکمہ کر رہے ہیں۔ ادھر فیض صاحب پر بات کر رہے ہیں تو ادھر حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں اپنے ناول پر حاضرین کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ دوپہر کو انتظار حسین کے ہاں کھانا کھا رہے ہیں تو سہ پہر کو شہر سے باہر ظفر اقبال سے ملنے ان کے فارم ہائوس پہنچ رہے ہیں۔ اور ہاں، رات کے دس بجے ایوب خاور کے گھر بھی تو چلے جاتے ہیں۔ ہم حیران پریشان کہ ا س بھاگ دوڑ میں بھی ان کے چہرے پر تھکن کے آثار تک نظر نہیں آئے۔ لمز میں تو جب سے یاسمین حمید نے گرمانی سینٹر کی باگ ڈور سنبھالی ہے اس وقت سے وہ سنٹر علمی اور ادبی مباحث اور مجالس کا مرکز بن گیا ہے۔ یاسمین حمید خود بھی بہت اچھی شاعرہ ہیں اور انہوں نے کئی اردو شاعروں کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے علمی اور ادبی مباحث پر گفتگو کے لئے پاکستان اور پاکستان سے باہر کے ادبی نقادوں اور علم و ادب کے شناوروں کو اکٹھا کرتی رہتی ہیں۔ یعنی وہاں بھی علمی اور ادبی مباحث کی محفلیں برپا ہوتی رہتی ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی کی صاحب زادی مہر افشاں کو ہم اس حوالے سے جانتے ہیں کہ وہ ہمارے ایک انگریزی اخبار کے ادبی ایڈیشن میں کالم لکھتی ہیں۔ انہوں نے خاص طور سے غالب اور اس کی شاعری کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ غالب کا وہ کلام جو اس نے خود ہی مسترد کر دیا تھا مہر افشاں نے اسے کھنگالا ہے۔ وہ انگریزی داں طبقے کے لئے غالب کے مشکل اشعار کی تشریح کرتی ہیں۔ اردو والوں کے لئے شاید یہ نئی بات نہ ہو کہ ان کے سامنے غالب کا دیوان کامل موجود ہے لیکن انگریزی پڑھنے والوں کے لئے یہ بالکل ہی نئی بات ہے۔ غالب کے مشکل اشعار کے معنی تلاش کرنا اور ان کی تشریح کرنا اور وہ بھی انگریزی میں، آسان کام نہیں ہے۔ ڈاکٹر نعمان الحق بھی یہ علمی تحقیق و تفتیش کرتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے آپ کو غالب تک محدود نہیں رکھا ہے۔ مہر افشاں نے اسے خاص طور سے اپنا موضوع بنایا ہے۔ مہر افشاں نے حسن عسکری پر بھی انگریزی میں کتاب لکھی ہے۔ وہ میراجی پر بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ کام وہ امریکہ میں بیٹھ کر کر رہی ہیں۔ وہ ایک امریکی یونیورسٹی میں پڑھا رہی ہیں۔ تو جناب، ہمارے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے درمیان سے علمی و ادبی گفتگو کا فن اٹھ گیا۔ ہم پرانی محفلوں کو رو رہے ہیں اور ہمارے درمیان جو نئی سرگرمیاں ہو رہی ہیں انہیں نہیں دیکھتے ۔
تازہ ترین