• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب کیلئے یہ بات انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ آرمی چیف نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور وقت پر ریٹائر ہو کر ایک اصول پسند، وعدے کے پابند اور بہادر سپہ سالار کے طور پر اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیا۔ ضربِ عضب اور کراچی آپریشن کے حوالے سے نام کمایا، انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اِسکے وہ آثار دیکھنے کو ملے جو پہلے ادوارمیں دیکھنے کو ملتے تھے، صرف ٹوئٹ سے کام لیا جاتا رہا،کچھ حد تک دبائو ضرور بڑھایا مگر ایک حد سے آگے نہیں، اگرچہ کچھ سابق فوجی جنرلوں اور کچھ عہدیداران کا خیال تھا کہ اُن کے ادارے سے چھیڑچھاڑ کی جارہی ہے تو مداخلت کر ڈالی جائے مگر اِس صورتحال کی ایک طرف حکومت پیش بندی کررہی تھی تو دوسری طرف سے پیش رفت بھی نہیں ہورہی تھی۔ اگرچہ ضرور سنا گیا کہ سابق آرمی چیف اپنی مرضی سے جنبش کرتے ہیں اور ہر حادثہ پر پہلے پہنچ جاتے ہیں یا غیرممالک چلے جاتے ہیں۔ یہ فکر کی بات تو تھی مگر زمین پر کچھ نہیں دیکھنے میں آیا اگرچہ سول اور سفید بیوروکریسی و اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش 1958ء سے پہلے سے جاری ہے، پہلے سیاستدانوں کو کمزور سمجھ کر یا حکومت کے نظام کو بہتر طور پر نہ سمجھنے پر سفید بیورو کریسی اقتدار پر قابض ہوئی تو پھر خاکی بیورو کریسی نے اقتدار پر قبضہ جما لیا، جو طویل مدت تک جاری رہا، فیصلہ یہ تھا کہ سیاستدان جب تک اِس مقام پر نہ پہنچ جائیں کہ وہ حکمرانی کرسکیں تب تک خاکی بیورو کریسی کو حکمراں رہنے کا حق ہے، اسپر میں نے اپنی کتاب ’’سیاستدانوں اور جنرلوں میں اقتدار کی کشمکش‘‘ جو 1989ء میں شائع ہوئی میں سیرحاصل بحث کی ہے۔ 1999ء کے بعد سیاستدانوں نے بہت گہرائی سے مطالعہ کیا اور آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جس میں میثاقِ جمہوریت اور قومی مفاہمتی پالیسی جیسے معاہدات کئے گئے جو کافی موثر ثابت ہوئے، اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے، ایک بات پر متفق تھے کہ حق حکمرانی سیاستدانوں کا ہے۔ جب آمریت تھی تو سیاستداں یہ سمجھتے رہے کہ اس ملک میں حکومت نہیں کی جاسکتی، اس لئے کئی سیاستدانوں نے یہ اصول وضع کرلیا کہ عوام کے مسائل سے لاتعلق ہو کر مال بنائو اور چلتے بنو۔ تاہم محترمہ بینظیرکی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے جہاں پاکستان کو بچانے کا کردار ادا کیا وہاں کرپشن کے الزامات بھی لگتے رہے اور میاں نواز شریف نے اُن کے خلاف کوئی عوامی تحریک نہیں چلائی کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ اگر ایسا کیا جاتا تو تیسری طاقت اقتدار میں آجاتی، مگر جنرل پرویز کیانی کے دور میں وہ یہ بات دیر سے سمجھے کہ جنرلوںنے اقتدار سے دور رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور پرویز مشرف کی غلطیوں سے یہ سیکھ لیا ہے کہ حکمرانی اُن کی تربیت کا حصہ نہیں ہے۔ مگر کرپشن پر اُن کو بہرحال تحفظات رہے، اب بہت سے کیسز ایسے بھی سامنے آئے جس کے بعد صرف سیاستدانوں کو کرپشن کا موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، مگر پی پی پی کے دورِ حکومت میں بلا کی کرپشن تھی جس کا اظہار میاں صاحبان نے بھی اپنے بیانات کی حد تک تو کیا مگر تحریک چلانے کی کوشش نہیں کی، اُن کو یہ خدشہ تھا کہ مداخلت ہوسکتی ہے، مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ آصف علی زرداری صاحب نے ان پر وار کیا مگر انہوں نے شدید ردعمل نہیں کیا اور عدلیہ کی مداخلت سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بحال ہوگئی۔ اسطرح میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو بچانے کیلئے پی پی پی نے مدد کی اور عمران خان کے دھرنے کو بے اثر کردیا۔ اِسکے علاوہ جب کبھی بھی عمران خان نے حکومت کو ختم کرنے کوشش کی تو پی پی پی نے جمہوریت کو برقرار رکھنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا، اِس دورانیہ میں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ عمران خان کے دھرنے کے جلوس کے جلو کب کوئی اقتدار پر قابض ہوجائے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ یہ رہا جو اب ثابت ہوگیا کہ اقتدار پر قبضہ نہ کیا جائے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سیاستدانوں اور خصوصاً دو پارٹیوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، جیسے سینیٹ کا چیئرمین پی پی پی کا تھا اور سندھ میں حکومت بھی پی پی پی کے پاس رہی، مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں سیاسی طبع آزمائی کرنے کی کوشش نہیں کی، نوازشریف صاحب نے مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت مسلم لیگ (ن) کے پاس ہونے پر اکتفا کیا۔ عمران خان کو خیبرپختونخوا میں حکومت دے کر اُن کو اپنی مہارت دکھانے کیلئے حکمرانی کرنے دی، عمران خان اس کے باوجود مرکزی و صوبائی حکومت کو نقصان پہنچانے کے درپے رہے اور ایمپائر کی انگلی کی آس لگائے بیٹھے رہے، ایک اور زاویہ سے دیکھا جائے تو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میںمیڈیا کے ایک حصےنے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ ایک اور اہم بات یہ بھی کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اس کے پاس بری، بحری اور فضائی ایٹمی فورسز بھی ہیں، پھر بحریہ کا کردار گوادر کی وجہ سے بہت بڑھ گیا ہے، دیر سے ہی سہی مگر حکومت کو بحریہ کی ضرورت کا خیال آ ہی گیا جبکہ بھارت اس پر 1985ء سے کام کررہا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے ایٹمی آبدوز سے ایٹمی حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے، جسے دوسرے حملہ کی صلاحیت کہا جاتا ہے۔ مزید برآں جہاں چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کی ترقی کے نئی راہیں کھول رہی ہے وہاں چیلنج بھی دس گنا بڑھ گئے ہیں، وہ ملک میں کسی بھی مہم جوئی کو روکتے ہیں اور قومی یکجہتی کی ضرورت کو بڑی سختی سے یاد دلاتے ہیں، بہرحال یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستانی قوم اور ادارے، اُسکے ساتھ میڈیا ہائوسز بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف چومکھی جنگ کامقابلہ انتہائی تدبر سے کررہے ہیں جو یہ بات اُجاگر کرتا ہے کہ پاکستانی قوم جمہوریت اور اپنی سلامتی کے حوالے سے کافی حساس ہوگئی ہے اور اسکا ہر ایک ادارہ اپنے اپنے کردار کو سمجھ رہا ہے اور صورتحال کا بغور مطالعہ کرکے اپنا قدم اٹھا رہا ہے۔

.
تازہ ترین