• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنگلہ دیش میں ان افراد کی پھانسیوں کاسلسلہ جاریہے جن پر الزام ہے کہ 1971ءمیں ان لوگوں نے مکتی باہنی ، باغیوں یا بھارتی حملہ آوروں کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کیلئے کردار ادا کیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوامی لیگ کی موجودہ سربراہ اوربنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے خیال میں ان افراد نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا ساتھنہیں دیا تھا یا اسکی مخالفت کی تھی۔ یہ پھانسیاں یا لمبی قید کی سزائیںایک ایسے نام نہادٹریبونل کے ذریعے دی جا رہی ہیں جسے ساری دنیا نے مسترد کر دیا ہے اور جس میں قانون و انصاف کے تمام مسلمہ اصول بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔ ظلم و ستم کی انتہا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما پروفیسر غلام اعظم کو نوے سال کی عمر میںجیل میں ڈالا گیا اور پھر اس ٹریبونل نے انہیں 90 سال کی قید کی سزا بھی سنادی۔ یہاں تک کہ جیل میں انکا انتقال ہو گیا۔ بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے۔ کیونکہ جن افراد کو سزائیں سنائی جا رہی ہیں وہ بنگلہ دیش کے شہری ہیں۔یہ دلیل بظاہر معقول نظر آتی ہے۔لیکن کیا کسی حکومت کو آج کی دنیا میں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے خلاف جس طرح کی کارروائی چاہے کرے اور جب عالمی برادری اسکا نوٹس لے تو جواب میں کہہ دے کہ یہ ہمارے اپنے شہری ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جو عالمی برادری کا حصہ ہو ،اس نےبہت سے عالمی معاہدوں پر دستخط بھی کر رکھے ہوں ،اسکے بعد وہ اپنے شہریوں سے من مانا سلوک کرے۔بنیادی انسانی حقوق کے معاملے میں آج کی دنیا بڑی حساس ہے۔اقوام متحدہ کا ایک کمیشن بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ا یسے میں کیا بنگلہ دیش کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ 44 برس پرانے معاملے کو بنیاد بنا کر اپنے شہریوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرے۔ یہاں تک کہ اسے پھانسیوں پر لٹکا دے۔ پاکستان کی مثال لیجیے کہ جہاں ہمارے آئین کے مطابق پھانسی کی سزا موجود ہے۔ لیکن بہت سی عالمی قوتوں کے دبائو کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے دور میں آئین میں ترمیم کیے بغیر عملاََِ یہ سزا موخر کر دی گئی اور پھانسی کی سز ا پانے والے ہزاروں مجرم جیل کی کوٹھریوں میں بند رہے۔ موجودہ حکومت نے جب آئین پر عمل کرتے ہوئے پھانسیوں پر عمل درآمد شروع کیا تو خاص طور پر یورپی یونین سرگرم ہوگئی اور دہائی مچ گئی کہ پھانسی کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ اسی طرح چائلڈ لیبر کے حوالے سے پاکستان دبائو کا شکار رہا ۔ ایک زمانے میں صرف اس بنیاد پر بعض ممالک نے ہمارے فٹ بال اور قالین خریدنے سے انکار کر دیا کہ یہاں بچوں سے کام کروایا جاتا ہے ۔کیا پاکستان یہ دلیل دے سکتا تھا کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور ہم ان سے جو چاہے مرضی کام لیں۔
اس حوالے سے ہمارے ہاں قانون سازی ہوئی۔قالین اور کھیلوں کا سامان بنانے والوں نے خود پیش رفت کی اور چائلڈ لیبر کا سلسلہ ختم ہوا۔لہذا بنگلہ دیش حکومت کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے کسی بھی قسم کا سلوک روا رکھ سکتی ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس ظلم و بربریت پر آواز اٹھا نا اس پر لازم ہے۔ اسکی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں ان پر پاکستانیت کا الزام ہے۔ انکا جرم یہ قرار دیا گیا ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی نام نہاد جنگ آزادی میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ یہ کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس وقت بنگلہ دیشکا کوئی وجودنہ تھا اور آج کا بنگلہ دیش پاکستان کہلاتا تھا۔ بنگلہ دیش کے جن شہریوں نے پاکستان کی حفاظت کی جنگ لڑی ،انہوں نے دراصل اپنے وطن عزیز کی جنگ لڑی۔اگرآج 1971ءہی کی طرح بھارت، بنگلہ دیش کو ٹکڑےٹکڑے کرنے کیلئے اس پر حملہ آور ہو جائے تو بنگلہ دیش کے عوام پر کیا لازم آتا ہے؟
حسینہ واجد کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان دشمنی میں حدوں سے بہت آگے نکل گئی ہیں۔انہوں نے عملا بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ عالمی سطح پر بھی اسلامی ممالک کے دھارے میں رہنے کے بجائے بھارت کی ہم نوائی میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ انہوں نے نام نہاد جنگ آزادی کے نام پر وزارت بھی قائم کر رکھی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک کے طور پر پھلنے پھولنے میں مدد دی۔ 16 دسمبر1971ءکو جب بنگلہ دیش وجود میں آیاتو اسکے ’’بابائے آزادی‘‘ شیخ مجیب الرحمن اس وقت کے مغربی پاکستان میں قید تھے۔پاکستان بنگلہ دیش کی مشکلات میں اضافہ کرنا چاہتا تو شیخ مجیب الرحمن کو آزاد کرنے اور بنگلہ دیش بھیجنے میں تاخیر کر سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اسی طرح اپریل 1974ءمیںطے پانیوالے سہ فریقی معاہدے پر بھارت ،پاکستان اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم کے دستخط ہیں۔ اس معاہدے میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے یہ ریمارکس بھی موجود ہیں کہ جو کچھ ہوا اس پر ہم بنگلہ دیش کے عوام سے معافی مانگتے ہیں۔ وزیراعظم نے forgive and forget یعنی معاف کرو اور بھول جائو کے الفاظ استعمال کیے۔ جوابا بنگلہ دیش کا یہ وعدہ بھی معاہدے کا حصہ ہے کہ وہ تلخ ماضی کو بھلا کر خیر سگالی کا چلن اپنائے گا۔ لہٰذا1973 ءمیں قائم کیا گیا وار کرائم ٹریبونل ختم کر دیا گیا۔ اسکے ساتھ ہی وہ195 پاکستانی قیدی رہا کر دئیے گئے جن پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا اعلان ہوا تھا۔اس معاہدے سے قبل پاکستان نے فروری 1974ء میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور اس وقت شیخ مجیب الرحمن کو لاہور میں اسلامی کانفرنس میں شرکت کا موقع بھی دیا گیا۔ جولائی 1974ءمیں بھٹو صاحب بنگلہ دیش گئے۔ انہوں نے آزادی کی یادگار پر ایک بار پھر ماضی کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا اور یہاں تک کہا کہ آپکے ہیرو ہمارے ہیرو ہیں۔ اسکے بعد بھی سال ہا سال تک معاملات چلتے رہے۔ کبھی حسینہ واجد کبھی خالدہ ضیا حکومت میں آتی رہیں۔ لیکن اسے ایک افسوس ناک اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ادھر بھارت میں نریندر مودی جیسے متعصب کی حکومت بنی اور ادھر بنگلہ دیش میں بھی حسینہ واجد کے دل میںتعصب اور انتقام کے جذبے نے انگڑائی لی اور ایسے افراد کی پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جن کا گناہ صرف یہ تھا کہ 44 سال پہلے انہوں نے اپنے وطن کو باغیوں اور بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔
اس معاملے میںپاکستانی حکومت کیطرف سے احتجاج شاید کافی نہیں۔ایک حلقے کا خیال ہے کہ پاکستان کو یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب مبذول کروانی چاہئے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی زیادہ جوش و خروش نہیں دکھایا۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کا رد عمل اور احتجاج بھی بس رسمی سا رہا ۔ اس نے اس معاملے میں اتنا جوش و خروش بھی نہیں دکھایا جتنا وہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دکھا رہی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی لاتعلقی کا رویہ اپنائے رکھا اور تاثر دیا کہ جیسے یہ صرف جماعت اسلامی کا معاملہ ہے۔ اسی طرح ہمارے میڈیا نے بھی اسے ایک بڑے مسئلےکے طور پر نہیںا ٹھایا۔یہ ہماری طرف سے اجتماعی بے حسی کا مظاہرہ ہے جو اپنی جگہ افسوسناک ہے۔
تازہ ترین