• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین کے عظیم انقلابی رہنماماؤزے تنگ نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ ہم دانشور بچپنے کا شکار ہوتے ہیں ۔ ہم ایک پتھر کی جیومیٹری میں الجھ جاتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تاریخ پتھر پیسنے والی مشین ہے ۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے لوگ ’’جزو ‘‘ میں الجھ جاتے ہیں اور ’’ کل ‘‘ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ۔ پتھر کی جیو میٹری میں الجھنا اور پتھر پیسنے والی مشین کے عمل کا نہ سمجھنا ایک ایسا وطیرہ رہا ہے ، جو شاید تاریخ میں بہت پہلے سے رائے عامہ کو متاثر کرنے والے لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے لیکن جب کوئی شخص دوسروں کو پتھر کی جیومیٹری میں الجھانے کی شعوری کوشش کرتا ہے تو یہ وطیرہ بدنیتی پر مبنی عمل قرارپاتا ہے ۔ سندھ میں رینجرز کی تعیناتی اور خصوصی اختیارات کے حوالے سے صرف ایک نہیں بلکہ کئی حلقوں نے اپنےاپنے مقاصدکےلیے لوگوں کو ایک نہیں ، کئی پتھروں کی جیومیٹری میں الجھا دیاہے ۔ تین عشروں سے زیادہ عرصے سے کراچی میں جاری دہشت گردی اس لیے ختم نہیں ہو سکی کہ لوگوں کو اسی طرح پتھروں کی جیومیٹری میں الجھا کر رکھا گیا ۔ ’’ کل ‘‘ کو سمجھنے کا لوگوں کو موقع ہی نہیں دیا گیا ۔کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج نے آپریشن کیا تو انسانی حقوق کے پتھر کی جیو میٹری میں لوگوں کو الجھا دیا گیا ۔ پولیس نے آپریشن کیا تو سیاسی انتقام کے پتھر کی جیومیٹری میں نئی تھیوریز سامنے آ گئیں اور رینجرز کو دہشت گردی کے خاتمےکےلیے خصوصی اختیارات سونپےگئے تو کرپشن اور دہشت گردی کی مساوات کا ایک نیا فارمولا وضع کرکے ٹیڑھے میڑھے پتھروں میں آہنگ تلاش کیا جا رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تین عشروں سے زائد مدت سے جاری دہشت گردی کا سبب صرف اور صرف پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت میں کرپشن کرنےوالے لوگ ہیں ۔ پیپلز پارٹی والے خود بھی اسی جیومیٹری میں الجھے ہوئے ہیں ۔ وفاقی حکومت بھی مجموعی صورت حال کو سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے ۔ سندھ حکومت نے رینجرز کے قیام اور اس کے خصوصی اختیارات کے حوالےسے آئین کے آرٹیکل 147 کے تحت سندھ اسمبلی سے ایک قرار داد منظور کرا لی ہے ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس قرارداد کی مخالفت کر رہی ہیں اور اسے رینجرز کے اختیارات محدود کرنےسے تعبیر کر رہی ہیں ۔ تاجروں کی تنظیمیں رینجرز کے اختیارات میں مبینہ کمی کے خلاف مظاہرے کر رہی ہیں ۔ اسمبلی سے باہر کی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی رینجرز کے حق میں سڑکوں پر نکل آئی ہیں ۔ احتجاج کرنےوالے سب لوگوں کا ایک ہی موقف ہے کہ سندھ حکومت اپنے ’’کرپٹ ‘‘ لوگوں کو بچانےکےلیے رینجرزکےلیے اختیارات محدود کر رہی ہے ۔ بعض لوگ تو یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ سندھ حکومت کو برطرف کر دیا جائے اور کچھ ’’ جمہوریت پسند ‘‘ برطرفی کی بات تو نہیں کر رہے لیکن وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ساتھ رینجرز کو سندھ حکومت کے مزید انتظامی اور مالیاتی اختیارات دینے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔یوں لگتاہے کہ جیسےدہشت گردی کےخاتمےکی بجائے پیپلزپارٹی کےخاتمے کی تحریک چل پڑی ہے۔پہلے بھی دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ کئی جمہوری حکومتیں ختم ہوئیں ۔اب وہی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ ہم دو چار پتھروں کی جیو میٹری میں الجھے ہوئے ہیں اور تاریخ کی مشین ایک ایک سیکنڈ میں لاکھوں کروڑوں پتھروں کو پیس رہی ہے ۔
ہمیںپتہ ہی نہیں چل رہا کہ گذشتہ تین عشروںسے جاری دہشت گردی کے خلاف موجودہ ٹارگیٹڈ آپریشن اپنی پٹڑی سے اتر گیاہے اور لوگوںمیںیہ خدشہ پیدا ہو گیاہے کہ اس آپریشن کا منطقی انجام بھی پہلےکے آپریشنز کی طرح ہو گا ۔ اب کوئی ’’ کل ‘‘ کو سمجھے نہ سمجھے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ گذشتہ تین عشروں کے دوران اس طرح ہی ہوتا رہا ہے ۔ ایسا مسئلہ ضرور پیدا ہوتا ہے ،جس سے آپریشن یا تو پٹڑی سے اترجاتاہے یا اس کا رخ شعوری طورپر کسی اور طرف موڑدیاجاتاہے ۔ سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس پر سماعت کے دوران دہشت گردی کے اسباب پر طویل بحث ہوئی اور یہ بحث بھی پتھر کی جیومیٹری میںالجھی رہی ۔ رینجرزکے اختیارات کے حوالےسے جھگڑا مزیدبڑھے گا اور ہم پتھر کی جیو میٹری میں مزید الجھ جائیںگے ۔ کراچی میں اس وقت جو امن ہے ، اس طرح کا امن تین عشروں میں پہلے بھی قائم ہوا ہے لیکن ہم آج کی صورت حال کو اپنے کل کے تناظر میں سمجھنے کےلیے تیار نہیں ہیں ۔ کراچی کے حالات جس طرف جا رہے ہیں ، اس طرف کسی کو دیکھنے ہی نہیں دیا جا رہا ۔ ہماری نظریں صرف اس بات پر ہیں کہ رینجرز کے اختیارات کا تنازع کیا رخ اختیار کرتاہے ۔ یہ تنازع کیوں پیدا ہوا ، ہم اس کے اسباب پر بھی غور کرنےکےلیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں بدامنی پیدا کرنے والی قوتیں بہت زیادہ مضبوط ہیں ۔ وہ نہ صرف معاملات کو اپنے حساب سے چلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ ہماری سوچ اور ہمارے عمل کو بھی وہی کنٹرول کرتی ہیں ۔ ہم اس وقت یہ سوچ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے ’’ کرپٹ ‘‘ لوگوں کے خلاف کارروائی کرنےسے کراچی میں امن قائم ہو جائے گا تو تاریخی تجربے کے تناظر میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے سارے ’’ کرپٹ ‘‘ لوگوںکو اگر جیل میں ڈال دیا جائے تو بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جب پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں ہو گی تو ہم یہ پتھر پھینک دیںگے اور ہمارے ہاتھوں میں کوئی دوسرا پتھر ہوگا، جس کی جیو میٹری میں ہم الجھ جائیںگے ۔اچھا ہے کہ ہم الجھے ہوئے ہیں ، ورنہ ہمیں اگر اندازہ ہوجائے کہ کراچی کے حالات کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے تو ہماری نیندیں حرام ہو جائیں ۔
تازہ ترین