16دسمبر آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہدا کی پہلی برسی پر یہ قومی یکجہتی کا شاندار مظاہرہ تھا۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت شانہ بشانہ تھی۔(برادر محترم سینیٹر مشاہد اللہ خان کا اصرار اپنی جگہ کہ جمہوری معاشروں میں قیادت ایک ہی ہوتی ہے، منتخب قیادت) ملک بھر میں کروڑوں آنکھیں ٹی وی اسکرینوں پر مرکوز تھیں۔ کیسے کیسے مناظر تھے، ولولہ انگیز اور رقت آمیز۔ شہدا کے ورثا کو اعزازات کی تقسیم کا آغاز وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے ہاتھوں ہوا۔ شاہ صاحب سندھ(خصوصاًکراچی) میں آپریشن کے لئے رینجرز کو’’کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کے حوالے سے خاصے متنازع تھے لیکن یہاں ان کے لئے پروٹوکول میں کوئی کمی نہ تھی۔ یہاںاِن کے لئے بھی وہی آداب تھے جو دوسرے وزراءاعلیٰ کے لئے تھے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ یہاں اختلافات بھی ہوتے ہیں لیکن ’’کُٹی‘‘ نہیں ہوتی، افہام و تفہیم کے ذریعے درمیانی راہ نکال لی جاتی ہے، گاڑی چلتی رہتی ہے اور سسٹم ڈی ریل نہیں ہوتا۔ گزشتہ سال کی دھرنے کے دوران کے پی کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک بھی اپنے خان کے شانہ بشانہ تھے، دھرنا ختم ہوا تو وفاق اور کے پی کے میں معمول کے آئینی تعلقات بحال ہوگئے۔ گزشتہ ماہ زلزلہ زدگان کے لئے ریلیف مہم میں جناب پرویز خٹک، وزیراعظم کے قدم بقدم رہے۔ اے پی ایس کی اس تقریب میں عمران خان بھی تھے۔ وزیراعظم سے ان کا آمنا سامنا ہوا یا نہیں، اگر ہوا تو دونوں کا رویہ کیا تھا؟ اس بارے میں کوئی چیز ہماری نظر سے نہیں گزری ۔ البتہ شام کو ایک لائبریری کو شہدا سے منسوب کرنے کی تقریب میں، شہدا کے بعض لواحقین کی طرف سے تند وتلخ رویے کا خان نے بڑے حوصلے سے سامنا کیا اور ان کی دلجوئی کیلئے اپنی سی کوشش کرگزرے۔
اے پی ایس کی اس تقریب کے حوالے سے ہمارے کچھ دوست، سول ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے دُور کی کوڑی لائے بغیر نہ رہے۔ انہیں اس تقریب میں منتخب جمہوری قیادت مکمل طور پر حاوی نظر آئی کہ اُن کے بقول شہدا کے لواحقین میں اعزازات کی تقسیم کے لئے عسکری قیادت میں سے صرف چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کو اسٹیج پر بلایا گیافاضل تجزیہ کار نے یہاں یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ وہ جمہوریت کی بالادستی کے حامی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ فوج کے وقار کو بھی سربلنددیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ اس خواہش کا اظہار بھی کہ’’ حکومت اور فوج کسی مقابلے میں شریک نہ ہوں۔ اپنے اپنے دائرے میں مکمل سرگرم عمل رہیں اور ایک دوسرے کی طاقت بنیں کہ اسی سے ملک طاقتور ہوگا‘‘۔ ایک اور دوست نے اپنے احساسات کااظہار یوں کیا:’’ وہاں وزیراعظم نواز شریف ہی تقریب کے وارث بنے رہے ۔ وہ چین کے دورے سے اس تقریب کے لئے واپس آئے ، شہبازشریف بھی اسی طرح خاص طور پر شریک ہوئے، دوسرے صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی تھے۔ ان سے ایوارڈز بھی تقسیم کرائے گئے۔
فوج کی عزت ووقار کیلئے ہمارے فاضل دوستوں کی حساسیّت اپنی جگہ، لیکن یہاں وہ ایک بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرگئے ورنہ وہ اس اضطراب سے دوچار نہ ہوتے، اپنے کالموں میں جس کااظہار کئے بغیر وہ نہ رہے۔ حقیقت اتنی سی تھی کہ آرمی پبلک اسکول میں اس تقریب کا اہتمام پاک فوج نے کیا تھا۔ دعوت نامے خود جنرل راحیل شریف کی طرف سے تھے کہ وہی اس تقریب کے میزبان تھے۔ ایوارڈز کی تقسیم کے لئے کس کس کو بلانا ہے ۔ ظاہر ہے، یہ فیصلہ بھی انہی کی مشاورت سے ہوا تھا۔ کالم لکھنے سے پہلے وہ آئی ایس پی آر کے متحرک و مستعدسربراہ، جنرل عاصم باجوہ سے ہی رابطہ کرلیتے۔ سول ملٹری ریلیشن شپ کے موضوع پر ، بی بی سی سے وزیردفاع خواجہ آصف کے انٹرویو میں، سویلین بالادستی کے حوالے سے حساس، ہم جیسے جمہوریت پسندوں کے لئے غوروفکر کا خاصا سامان ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں خواجہ صاحب کا لب ولہجہ خاصا تلخ ہوجاتا لیکن یہ تندی و تلخی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئینی و جمہوری حکومت کے خلاف مہم جوئی کا فیصلہ چند افراد کاہوتا ہے۔ 12اکتوبر 1999کو تو یہ تعداد ہاتھ کی پانچ انگلیوں سے بھی کم تھی۔ کور کمانڈر ز کی بڑی تعداد کے لئے بھی یہ سب کچھ حیران کن تھا لیکن ’’ڈسپلن‘‘ کے اپنے تقاضے تھے۔ چند طالع آزماؤں کے کئے دھرے کی بدنامی بدقسمتی سے ’’ادارے ‘‘ کے سرجاتی ہے۔ فوج کے وقار کی بحالی کے لئے جنرل کیانی کو کیا کیا کچھ کرنا پڑا؟ انہوں نے فوج کو سیاست سے نکال لیا، افسروں کو سیاستدانوں سے ربط وضبط نہ رکھنے کی تاکید کی ۔ سول محکموں سے فوجیوں کو واپس بلالیا گیا۔ 2008ءکے الیکشن میں فوج قطعاً غیر جانبدار رہی۔ اس سال کو پاک فوج کے سپاہیوں کا سال قرار دیا گیا۔ جنرل راحیل شریف دفاعِ وطن کے لئے شاندار خدمات کے حامل خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ اپنے بزرگوں کی طرح وہ بھی پروفیشنل فوجی ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال کی دھرنا بغاوت کے دوران اُنہوں نے اپنے آئینی حلف کی پابندی میں جس استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ آئین سے ان کی کمٹمنٹ کا لازوال نقش چھوڑ گیا۔ عمران خان اور طاہرالقادری سے ان کی ملاقات میں وزیراعظم کی رضامندی شامل تھی۔ یہ بات راز نہیں رہی کہ اُنہوں نے دونوں معزز ملاقاتیوں کو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ الیکشن کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام اور انتخابی اصلاحات سمیت وہ ہر اقدام کے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے کو تیار ہیں لیکن وزیراعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، سو اس میں آرمی چیف اور اُن کے ادارے کے معمول سے زیادہ ایکسپوژر میں حیرت یا تشویش کی کیا بات؟ دُنیا کے بڑے بڑے جمہوری ملکوں میں بھی، ریاستی اِدارے اپنے اپنے سبجیکٹس پر اِن پٹ دیتے ہیں۔ فارن آفس خارجی امور کے حوالے سے بریف کرتا ہے، تو دِفاعی اِدارے(مثلاً امریکہ میں پینٹاگان ) دِفاعی معاملات کے حوالے سے اپنا تجزیہ، اپنی تجاویز دیتے ہیں۔ البتہ فیصلے کا حتمی اختیار منتخب حکومت ، منتخب اِداروں کو ہوتا ہے۔ وزیردِفاع نے بی بی سی سے انٹرویو میں بہت کام کی باتیں کیں، البتہ اُن کی اس بات سے اتفاق کے لئے ہم خود کوآمادہ نہیں کر پارہے کہ اگر جوڈیشری ، میڈیا یا دیگر اِدارے، گورننس کے حوالے سے حکومت پرتنقید کرتے رہتے ہیں، تو فوج کے حوالے سے یہ سوال کیوں اُٹھایا جاتا ہے؟