بالآخر سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب کو 18سالوں کے بعد جھوٹے اور بے بنیاد سیاسی انتقام کے دورپر بنائے گئے کوٹیکنا۔ SGS، ریفرنسز سے باعزت بریت مل گئی ہے اور عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ ان تمام کیسز کو ختم کیا جائے۔
1997-98ء میںمسلم لیگ (ن) کے دوسرے دورحکومت میں نیشنل احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمان نے جس طرح سیاسی مخالفین کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا۔ اس نے دور آمریت کی یاد تازہ کردی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو بغیر کسی ثبوت کے 11 سال جیل کی کال کوٹھری میں گزارنا پڑے اور محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ان جھوٹے مقدمات کی وجہ سے جلاوطن ہونا پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پر پریشر ڈالنے کیلئے آصف علی زرداری پر جھوٹے کیسز بنائے گئے ،انہیں گرفتار کیا گیا اور ان پر کون سا ظلم تھا جو نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین کو ان گیارہ سالوں میں ایک عدالت سے دوسری عدالت، ایک جیل سے دوسری جیل اور مختلف شہروں میں دربدر گھسیٹا گیا۔ ہر قسم کے جسمانی تشدد اور کئی کئی مہینوں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی زبان کو بھی کاٹنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت کے حکمران صرف یہی چاہتے تھے کہ آصف علی زرداری صاحب محترمہ کے خلاف بیان دے دیں ان کو کئی لالچ بھی دیئے گئے جو کہ کارآمد نہ ہوئے۔ 11 سال تک کا طویل عرصہ انہوں نے جیل میں بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے صبر کے ساتھ گزارا۔
تاریخ گواہ ہے جب تک زندگی کی صعوبتیں، مشکلیں قریب سے نہ دیکھو اور چکی میں سے پس کر نہ نکلو اور زندگی کی تیز تپش کا سامنا نہ کرو تو سونا کندن نہیں بن سکتا۔ ہیرا تراشنے پر ہی کسی مول کا ہوتا ہے۔ وگر نہ تو صرف ایک پتھر۔
آصف علی زرداری صاحب نے بھٹو خاندان کا فرد اور ایک بلوچ سردار ہونے کی حیثیت سے بلاشبہ اپنا فرض بہادری سے ادا کیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی وراثت جو کہ جدوجہد اور قربانیوں کی وراثت ہے اس کو قائم رکھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ازدواجی ساتھی ہونے کی حیثیت سے جہاں انہیں بے حد عزت، احترام اور توقیر ملی وہاں فرائض بھی بڑھ گئے۔ مشکل دور میں جب ہتھکڑیاں لگا کر ان کو عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا تو ہمیشہ پراعتماد اور ہمت میں نظر آتے تاکہ کہیں ان کو بجھا ہوا دیکھ کر جیالوں کا مورال نہ گر جائے۔
ایک خاص مسکراہٹ کے ساتھ سیاسی مخالفین کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کیا اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس مشکل اور کڑے وقت میں پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی اور جس طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت کو پانچ سال مکمل کروائے اس کا سہرا بلاشبہ آصف علی زرداری صاحب کے سر پر ہے۔
سربراہ مملکت کی حیثیت سے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دیئے۔ صوبوں کو بااختیارو خودمختار بنایا۔
اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں آئینی ترمیم کے ساتھ آئین کو اس کی اصل روح کے ساتھ بحال کیا اس کے علاوہ بھی تاریخی کام کئے جو بے مثال ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے نظریہ مفاہمت کو مدنظر رکھ کر عدلیہ اور افواج کے ساتھ ٹکرائو سے گریز کیا اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کو پہچان دے کر تاریخ ساز کام کیا۔
اب 18 سال بعد عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ثبوت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات خارج کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ آخر ان 11سالوں کی قید، ذہنی اذیت، خاندان سے دوری نا کردہ گناہوں کی ذلت کا کفارہ کون ادا کرے گا؟
کیا مقدمات بنانے والے افراد میں سے کسی میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سے اس کردار کشی کی معافی ہی مانگ سکیں۔