• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2017 ءکا سورج طلوع ہونے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں لیکن 2016 ءجاتے جاتے تاریخ کی کتاب میں کئی تبدیلیاں رقم کر گیا۔ سب سے بڑی تبدیلی تو فوج کی قیادت میں آئی۔ میڈیا میں ایسی خبریں تسلسل سے آرہی تھیں کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع ایک یقینی امر ہے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم ایک سال مزید وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔ خبر تھی کہ وزیر اعظم پر توسیع کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے اور اس دبائو میں انکی دوبہت ہی قریبی شخصیات بہت اصرار کر رہی ہیں۔ تاہم وزیر اعظم نے ایک جیسی سنیارٹی کے حامل چار جرنیلوں میں سے ایک کو چیئرمین اور ایک کو آرمی چیف تعینات کر دیا۔فوج جیسے منظم ادارے کے وقار کا تقاضا یہی ہے کہ سب کچھ انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ ہوتا رہے۔ کسی ایک جرنیل کا تین سالہ آئینی میعاد سے زیادہ عرصے تک اپنے عہدے پر جمے رہنا خود فوج کیلئے اچھی بات نہیں۔ اس سے بہت سے اہل اور باصلاحیت افراد کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے چھ جرنیل اڑتالیس سال سے زیادہ عرصے تک آرمی چیف کے عہدے پر فائزرہے۔ ان میں سے اکثر وہ تھے جنہوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا تھا اور وہ خود ہی اپنے آپ کو توسیع دیتے چلے گئے۔ تاہم جنرل(ر)اشفاق پرویز کیانی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہیںایک سویلین حکومت نے توسیع دی اور وہ تین سال کے بجائے چھ سال تک آرمی چیف رہے۔ اس روایت کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر ہے۔
جنرل راحیل کے عہد میں مثبت اقدامات بھی ملیں گے اور منفی بھی۔لیکن یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا عہد شروع ہو چکا ہے۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کی بالا دستی اور عوام کے منتخب حکمرانوں کے حق حکمرانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ پالیسیاں بنانا اور حکمت عملی وضع کرنا سول حکومت کا کام ہے۔ انکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فوج کو صرف اور صرف پیشہ ورانہ امور تک محدود رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں پر نظر ڈالی جائے تو جنرل باجوہ کے بارے میں کہی گئی یہ باتیں درست دکھائی دیتی ہیں۔ اگر وہ اپنے تین سالہ عہد کے دوران اپنی اس سوچ کو عملی شکل میں ڈھال جاتے ہیں تو یہ انکا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی صف اول کی افواج میں ہوتا ہے۔ شجاعت و بہادری اور جذبہ شہادت کے حوالے سے ہماری افواج کا کوئی ثانی نہیں۔ اسکی پیشہ ورانہ ساکھ کو اگر کوئی نقصان پہنچا ہے تو صرف ان چار جرنیلوں کی وجہ سے جو سیاست میں ملوث ہوئے اور بغیر کسی مینڈیٹ کے تین دہائیوں سے زائد عرصے تک ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ اب ان باتوں کو قصہ ماضی بن جانا چاہئے۔ فوج کی آن بان اور شان یہی ہے کہ وہ آئین کے تقاضوں اور بابائے قوم کے فرمان کے عین مطابق اپنے آپ کو سرحدوں کے دفاع اور قومی سلامتی کے امور تک محدود رکھے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران کئی نشیب و فراز آئے۔ لیکن فوج نے مداخلت سے گریز کیا۔ قوم کو یقین ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں یہ سوچ مزید پختہ ہو گی۔ حکمرانوں کے محاسبہ کاحق عوام کو حاصل ہے۔ حکمران انہی کے سامنے جوابدہ ہیں۔ 2013 ء میں عوام نے محاسبے کا یہ حق استعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کوفارغ کر دیا۔ موجودہ حکمران جماعت ، مسلم لیگ (ن) کے عوامی محاسبے میں بھی اب صرف ڈیڑھ سال باقی رہ گیا ہے۔ 2018ءکے انتخابات میں اسے اپنا نامہ اعمال لے کر عوام کے سامنے جانا ہوگا۔ اگر عوام اسکی کارکردگی سے مطمئن ہونگے تو اسے ووٹ دینگے ورنہ اسے بھی پیپلز پارٹی کی طرح گھر بھیج کر حکمرانی کسی اور کو سونپ دینگے۔ عوامی محاسبے کے اسی عمل کو جمہوریت کہتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاننے والے کہتے ہیں کہ انہیں ذاتی شہرت کی خواہش کبھی نہیں رہی۔ لیکن انہیں اس معاملے میں کافی کام کرنا پڑے گا ۔ ماضی میں آرمی چیف کی شخصیت کو ابھارنے کیلئے تشہیر کے جو ہتھیار استعمال کیے گئے انہیں کبھی بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔ بعض اوقات تو یوں لگا جیسے آرمی چیف، ملک کے وزیر اعظم اور صدر مملکت سے پروٹوکول اور عہدے میں بڑے ہیں۔ میڈیا کا ایک بہت بڑا حلقہ بھی پیدا کیا گیا جو اس مہم کا حصہ بن گیا۔ نئے آرمی چیف کو اس صورت حال پر قابو پانا ہو گاتاکہ فوج اور سول اداروں کے درمیان غلط فہمی پھیلانے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی اس ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار کی تقرری کانوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے جو اس ماہ کے آواخر میں اپنا منصب سنبھال لینگے۔ ہمارے ہاں یہ روایت بھی چل پڑی ہے کہ ججوں کی ساکھ پر بھی حملے کئے جاتے ہیں۔ اور ان پر طرح طرح کے لیبل لگائے جاتے ہیں۔ یہ افسوسناک رویہ ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے انتہائی عمدہ فیصلے دئیے ہیں اور انکے دامن پر کوئی داغ نہیں۔ عوام کو یقین ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہر قسم کے پروپیگنڈے کو نظر انداز کر کے انصاف و قانون کے مطابق فیصلے دیں گے۔ سیاسی محاذ پر ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں سرگرم ہوگئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے احیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔بہت اچھا ہو کہ پی پی پی سندھ میں اپنی کارکردگی پر بھی نگاہ ڈالےاور عوام کے مسائل کا تدارک کرنے کیلئے اقدامات کرے۔ دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ احتجاج اور دھرنوں وغیرہ سے تھک ہار کر پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واپس آگئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ تحریک انصاف ماضی کے برعکس پارلیمنٹ میں اپنا موثر کردار ادا کریگی۔حکومت کی کوتاہیوں کا محاسبہ اور قانون سازی پر اپنا زور بازو صرف کریگی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا تبدیلیوں کے اس موسم میں خود حکمران جماعت بھی اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کیلئے اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی لائے گی؟ ان باتوں کا جائزہ پھر کبھی سہی۔





.
تازہ ترین