• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت گزرتا ہے اور گزرتا چلا جاتا ہے۔ دن مہینوں میں ، مہینے سالوں میں اور سال صدیوں میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ تاہم وقت نہ افراد کا انتظار کرتا ہے اور نہ ہی اقوام کا۔ یہ فطری انداز میں بہتا چلا جاتا ہے۔ 2015 کا آخری سورج بھی گزشتہ جمعرات کی شام غروب ہو گیا اور جمعہ کی صبح طلوع ہونے والا سورج نئے سال کا پیغام لایا۔ اگر ہم سال 2015 کا جائزہ لیں تو بلاشبہ بہت سے شعبے اور معاملات ایسے ہوں گے جن میں ہم آگے نہیں بڑھ سکے یا خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ مگر مجموعی طور پر یہ امید اور امنگ کا سال تھا۔ قومی سطح کے کچھ اہم معاملات کے حوالے سے پیش رفت اور پیش قدمی کا سال تھا۔ تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود بہت سے معاملات میں ہمیں امید کا چراغ روشن ہوتا دکھائی دیا۔
2015 کے آغاز میں ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ دہشت گردی کے نا سور کے خاتمے کے حوالے سے ہم قومی سطح پر یکسو ہوئے۔ گرچہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہو چکا تھا۔ تاہم 16 دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد تمام سیاسی اورعسکری قیادت نے باہمی اتفاق رائے سے جنوری 2015 میں نیشنل ایکشن پلان مرتب کیااور یوں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے منظم اور مربوط اقدامات کا آغا ز ہوا۔ بجا کہ اس پلان سے متعلق بعض معاملات سست روی کا شکار رہے اور مطلوب نتائج حاصل کرنے سے قاصربھی۔تاہم بہت سے مثبت اقدام بھی ہوئے۔ مثلانفرت انگیز تقاریر اور لٹریچر کے سلسلے پر قابو پایا گیا۔ دینی مدارس اور این جی اوز کے بہت سے معاملات قانونی دائرہ کار میں لائے گئے۔ ملک بھر میں سینکڑوں سرچ آپریشنزکئے گئے اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔نتائج پر نگاہ ڈالیں تو تمام تر تنقید کے باوجود تسلیم کرنا پڑے گا کہ مجموعی طور پر حالات میں بہتری آئی ہے ۔2015میں بھی انتہا پسندی کے واقعات رونما ہوئے ۔ تاہم انکی تعداد گزشتہ برسوں کی نسبت بہت کم ہے۔ مگرا بھی بہت سے معاملات اصلاح احوال کے متقاضی ہیں اوران پر توجہ دی جانی چاہئے۔امید ہے کہ نیا سال نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں مزید کامرانیاں سمیٹنے کا سال ہو گا۔
گزشتہ برس کراچی کی صورتحال میں بھی قابل ذکر تبدیلی آئی ۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی کے حالات میں 80 فیصد بہتری واقع ہوئی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری ، قتل، اغوا اور دیگر جرائم میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ اس خوشگوار تبدیلی پر ایک جانب کراچی کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے ۔دوسری طرف صنعتکار، تاجر اور کاروباری حضرات مطمئن ہیں۔ برس ہا برس سے روشنیوں کا شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔اب اسکے چہرے پر روشنی کی کچھ جھلک دکھائی دینے لگی ہے تو اسکا اصل کریڈٹ وفاقی حکومت کو جاتا ہے جس نے اس معاملے کو اپنی سیاسی ترجیحات میں شامل کیا۔ ورنہ رینجرز تو جنرل مشرف اور پی پی پی کے ادوار میں بھی کراچی میں موجود تھی۔ گزشتہ کچھ عرصےسے رینجرز اختیارات کے تناظر میں سیاسی سطح پر تلخی دکھائی دیتی ہے ۔ اس تلخی کو زائل کرنے اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ وفاقی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ صوبہ بلوچستان کے حوالے سے بھی یہ سا ل بہت اچھا تھا۔ سول گورنمنٹ اور فوج کے باہمی اشتراک سے ہونے والے اقدامات کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ وہ بلوچستان نہیں ہے جو 2013 ء سے پہلے تھا۔ 2015 ءکے اختتام میں مثبت پیش رفت ہوئی کہ نہایت خوش اسلوبی کیساتھ مری معاہدےکے مطابق اقتدار کی منتقلی ہوئی اور ڈاکٹر مالک کے بعد ثنا اللہ زہری نے وزارت اعلیٰ سنبھال لی۔ یہ بھی بدلے ہوئے بلوچستان کا ہی عکس ہے کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون بطور اسپیکر منتخب ہوئی۔ چینی صدر کادورہ پاکستان بھی 2015 کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ دورہ اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے عملی پیش رفت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گی۔ گزشتہ کچھ ماہ سے یہ منصوبہ مشرقی اور مغربی روٹ کی بحث کے حوالے سے تنقید کی زد میں تھا۔ سال 2015 کے اختتام میں وزیر اعظم نوازشریف نے مشرقی روٹ سے پہلے مغربی روٹ کا افتتاح کر کے اس بحث کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ۔ ژوب میں ہونے والی اس تقر یب نے قومی یکجہتی کا بھرپور پیغام دیا جس میں اےاین پی، قوم پرست جماعتوں اور دیگر سیاسی قیادت کی موجودگی میں اس منصوبے کے مغربی روٹ کا افتتاح ہوا۔جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے حوالے سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی اہم معاملہ تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر کئی برسوں بعدیہ انتخابات ہوئے۔ اب نئے سال میں بلدیاتی حکومتیں بھی قائم ہو جائیں گی ۔ امید کی جانی چاہئے کہ انکو اختیارات بھی منتقل کیے جائیں گے تاکہ یہ حکومتیں عوام الناس کے مسائل حل کر سکیں ۔ جمہوریت ہی کے تناظر میں 2015 کی ایک بڑی پیش رفت دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کا فیصلہ تھا۔ عدالتی فیصلے کے باعث ملک میں غیر یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ہوا۔ اس فیصلے سے نہ صرف انتخابات کی ساکھ بحال ہوئی بلکہ انتخابی دھاندلی کا نعرہ بھی قدرے دھندلا گیا۔ خارجہ تعلقات کا جائزہ لیںتو اس میں بھی کچھ مثبت پہلو دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ سال میںخاص طور پر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بہت بہتری آئی۔ وزیر اعظم نوازشریف اور مودی کی پیرس میں ہونے والی ملاقات اور دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کا بنکاک میں ملنا سود مند رہا ۔ انہی ملاقاتوں کا شاخسانہ تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان آئیں اور ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی۔ سال کے اختتام پر بھارتی وزیر اعظم کادورہ پاکستان بھی خارجہ تعلقات کے حوالے سے بڑی زقند تھا۔ مودی صاحب خود خواہش کا اظہار کر کے پاکستان آئے اور یوں 15 جنوری 2016 میں خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات ہونا طے پایا۔ افغانستان کیساتھ ہمارے تعلقات جو برسوں سے کشیدہ اور سرد مہری کا شکار تھے۔ وہ بھی گزشتہ سال بہتری کی جانب گامزن ہوئے۔ افغان صدر اشرف غنی پاکستان تشریف لائے۔ وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کے افغانستان دوروں سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات استوار ہوئے۔ یعنی 2015 میں پاکستان اپنے دو اہم ہمسایوں سے دوریاں کم کرنے میں کامیاب رہا۔
یوں تو کرکٹ اور کرکٹ بورڈ کے بہت سے معاملات میں بہتری کی ضرورت ہے تاہم 2015 میں چھ برسوں کے بعد زمبابوے کرکٹ ٹیم کا پاکستان آنا کرکٹ کے حوالے سے بڑی کامیابی تھی۔ اسی طرح میڈیا کے حوالے سے بھی ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ 13 برس بعد الیکٹرانک میڈیا کیلئے ایک ضابطہ اخلاق تشکیل پایا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ضابطہ حکومت اور میڈیا مالکان کی باہمی اتفاق رائے اور رضامندی سے بنایا گیا۔اسی طرح ایک فہرست ایسی بھی مرتب ہوسکتی ہے جو ان معاملات سے متعلق ہو جن پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ۔تاہم غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو مجموعی طور پر 2015 امید اور امنگ کا سال رہا۔ اس سال کا سبق یہی ہے کہ ہم تمام قومی معاملات کو ذاتی یا سیاسی مفاد کی عینک سے دیکھنے کے بجائے قومی مفاد کی نظر سے دیکھیں تو پاکستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ۔
تازہ ترین