• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریاست کے اندر ریاست نہیں ہو سکتی۔لیکن ہم اس معاملے میں خودکفیل ہیں۔ ہمارے اداروں کو قدرت نے اتنے ذہین ،فطین اور عقلِ کل قسم کے لوگوں سے نواز ا کہ قیا م کے فوری بعد ریاست پاکستان کے تقریبا تمام ادارے غیر فعال ہو گئے یا یوں کہہ لیجئے کہ ہمارے ادارے کبھی فعال ہوئے ہی نہیں اگر مزیدباریکی میں جائیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اداروں کو کبھی فعال ہونے ہی نہیں دیا گیا۔ جو ’’سورما‘‘ آیا اس نے کہاکہ بس میں ہی میں ہوں اور اداروں کو موم کی ناک کی طرح موڑتا رہا۔ قانون کی حکمرانی کی بجائے ون مین شو چلانے اور برداشت کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔کافی سال پہلے پنجاب سے اچانک خبرآئی کہ فلاں اور فلاں چور اور ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔ پھر یہ خبریں تواتر سے آنے لگیںاور ہوتے ہوتے یہ خبریں روز کا معمول بن گئیں۔ قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کرنے والے حلقے پریشان ہو گئے کہ اچانک چوروں اور ڈاکوئوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہر روز پولیس تحویل سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور مارے جاتے ہیں ۔ جلد ہی یہ بات کہی جانے لگی کہ یہ اچانک تبدیلی چوروں اور ڈاکوئوں کے رویے میں نہیں آئی بلکہ کسی عقلِ کل ذہن میں یہ اچھوتا خیال سما گیا کہ مخدوش لا اینڈ آرڈر کا یہی حل ہے کہ جعلی پولیس مقابلے ڈال کر مجرموں کو مارو۔ ان صاحب کو مخدوش لااینڈ آرڈر کی کوئی اور وجہ نظر نہیں آئی کہ پولیس افسران کرپشن کے چیمپئن بن چکے ہیں، سیاستدان چوروں اور ڈاکوئوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ عدالتیں غیر موثر ہیں اور اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عدلیہ میں بھرتی کا طریقہ کار ٹھیک نہیں یا یہ کہ ججوںپر مرضی کے فیصلوں کیلئے دبائو ڈالا جاتا ہے ۔عدالتوں پر حملے کئے جاتے ہیں حتی کہ سپریم کورٹ پر حملہ کیا جاتا ہے۔انہیں وجہ نظر آئی تو صرف ایک کہ معاشرے کے غریب ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے ان’’ مجرموں ‘‘کو پھڑکا دو۔ انہیں یہ باتیںسوچنے کی زحمت ہی نہ ہوئی کہ نجانے کتنوں کو ایک نکتے نے محرم سے مجرم بنا دیا ہو، یا یہ کہ مجرموں کو بھی زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق ہے، یا یہ کہ ملزم کو شفاف ٹرائل کا بنیادی قانونی حق حاصل ہے، یا یہ کہ کسی ملزم کو مجرم قرار دینے کا حق انہیں یا ان کے مشیروں کو نہیں بلکہ عدالتوں کو ہے، وغیرہ، وغیرہ۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ اور عقلِ کل حضرات کو یہ خیال چرایا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑی جانے والی ’’ڈرٹی وار‘‘ کیلئے بہترین ایندھن پاکستان کے غریب لوگوں کے بچوں کو بننا چاہئے سو اس نے آن کی آن میں پاکستان کو نوجوان جنگجو پیدا کرنے والی صنعت میں تبدیل کر دیا سو غریب پاکستانی والدین کے لاکھوں نہیں تو ہزاروں پھول ادھ کھلے ہی مرجھا گئے۔ مختلف شکلوں میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ، علیحدہ بات ہے کہ اس دور میں امریکہ پاکستانی عام آدمی کی ادھ کھلی اولادوں کو ’’مجاہدین‘‘ کے خطاب سے نوازتا تھا لیکن اب وہ انہیں ’’دہشتگرد ‘‘ کہتا ہے۔اسی طرح پاکستان کی سرزمین کو فرقہ وارانہ پراکسی لڑائی کا میدانِ جنگ بنا دیا گیا ۔سو کئی عشروں تک اس خو ن آشام فرقہ واریت میں پاکستانی خون بہتا رہا ۔ دردمند حضرات آئینی حقوق، آئینی ضمانتوں، ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں، قانون کی حکمرانی کا رونا روتے رہے لیکن چند افراد کی منشا کے آگے آئین ، قانون اور ادارے بے بس نظر آئے۔پھر جب یہ دونوں مشن اور انکے کردار کنٹرول سے باہر ہونے لگے تو ایک دفعہ پھر آئینی وبنیادی حقوق، قانون اور عدالتی ڈھانچے کو نظر انداز کرتے ہوئے ماورائے آئین اور قانون حل نکالے جانے لگے۔ ٹرائل کے بغیر لوگ غائب ہونے لگے۔ سٹرکوں چوراہوں سے لاشیں ملنا شروع ہو نا شروع ہو گئیں۔ آئین ، قانون اورعدالتی نظام کو بائی پاس کرنے کا جواز دیا جانے لگا کہ سنگین سیکورٹی مسئلوں کا یہی حل ہے۔ دہشتگردی میں یقینی طور پر ملوث لوگوں کو سزا دینے سے قانونی ڈھانچہ قاصر ہے ، اسلئے لوگوں کی جانیں لینے والوں کو سز ا دینے کیلئے غیر موثر قانونی کارروائیوں کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ چند افراد پھر اداروں اور قانون پر بھاری ثابت ہوئے۔
لیکن یہ کیا ا ب سوال اٹھانے والوں کو بھی گولی چلانے والوں کے گروپ میں شامل کئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔سوال اٹھانے سے کسی کی جان نہیں جاتی، ایک مکالمے کا آغاز ہوتا ہے ۔ مکالمے سے بھی کسی کی جان نہیں جاتی بلکہ علمی اور عقلی کسوٹی پر پرکھنے سے مسائل کے بہتر حل نکالے جا سکتے ہیں۔سوال غلط ہو سکتا ہے، جواب غلط ہو سکتا ہے لیکن بحث اور مکالمہ ہی نہیں ہونا چاہئے یہ کونسا چلن ہے ؟ اور سوال اٹھانے والے کو مبینہ دہشتگردوں اور علیحدگی پسند جنگجوئوں جیسی سزا کیونکر دی جا سکتی ہے؟امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ اور فوجی آمریت کے وجود کے جھوٹے جواز مہیا کرنے کیلئے پچھلے تیس چالیس سالوں سے ریاستی اداروں اور طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک خطرناک قومی بیانیہ مسلط کیا گیا ہے۔زبردستی اور دھونس کا استعمال کرتے ہوئے اس قومی بیانیہ پر مکالمے کا گلا گھونٹا گیا ہے۔ قومی بیانئے پر بحث مباحثے پر ایک غیر تحریری اور غیر رسمی پابندی کو یقینی بنانے کیلئے ریاستی اور غیر ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تیس چالیس سالوں میں معاشرے میں بتدریج گھٹن بڑھتی گئی اور ایک لاوا پکنا شروع ہو گیا۔ دوسری طرف پاکستان دنیا بھر سے کٹنا شروع ہو گیا اور آج بین الاقوامی کمیونٹی میں ہمارا مقام ہے، وہ لکھنے کے قابل نہیں۔سوشل میڈیا کا انقلاب آیا توریاستی بیانیہ سوشل میڈیا پر زیر بحث آنا شروع ہوا۔ ایڈیٹنگ کی بندش سے آزادی او ر وسیع پیمانے پر آواز لوگوں تک پہنچنے کی سہولت کے باعث کہیں کہیں توازن کا دامن بھی چھوٹا اور کہیں کہیں مناسب حدود و قیود بھی عبور ہوئیں۔ کچھ انتہائی مثالیں بھی سامنے آئیں۔پچھلے تیس چالیس سالوں سے قومی بیانیہ کو کنٹرول کرنے والے ریاستی اور غیر ریاستی حلقوں کو شکایت ہوئی۔ بعض صورتوں میں شکایت جائز ہے اور بعض صورتوں میں قومی بیانیہ پر اجارہ داری کی عادت کا شاخسانہ ۔لیکن یہ کیا کہ مبینہ طور پر نہتے لوگوں پر گولی چلانے والے اور مبینہ طور پر ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے والے جن ماورائے آئین و قانون کا نشانہ تھے، سوال اٹھانے والے بھی اسی کے حقدار ٹھہرے۔ چند افراد نہیں یہ ریاست آئین اور قانون کے مطابق چلنی چاہئے۔ افراد کی من مانی کے نتائج بھگتنے سے بھی اگر ہمیں سبق نہیں ملا تو پھر ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔



.
تازہ ترین