فلسطین اور کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ایک خوفناک انداز میں ابھر رہے ہیں جن کی وجہ سے تیسری عالم گیر جنگ کا خدشہ شدت سے بڑھ رہا ہے مگر دنیا کے ممالک ان دو مسئلوں پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی کوئی شدت سے سرگرمی دکھائی دے رہی ہے حالانکہ یہ دونوں مسئلے تیسری عالم گیر جنگ کی کسی وقت بھی وجہ بن سکتے ہیں کیونکہ ایک کا تعلق مشرق وسطیٰ کے اسلامی ملکوں سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق ایشیا کی دو بڑی طاقتوں سے جن کی آبادی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ ہندوستان پاکستان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، ایک وقت یہ تھا کہ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے ہندوستان کے طول وعرض میں لگتے تھے مگر آج چین اور ہندوستان دونوں جنگی لحاظ سے طاقتور اور ایک دوسرے کے خلاف ہر محاذ پر آمنے سامنے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کا پہیہ آگے نہیں جارہا بلکہ 1947میں ہی کھڑا ہے وہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے۔ اب تو انہوں نے آئین کی دفعہ 370بھی ختم کردی ہے جس کے تحت کشمیر کو خاص حیثیت حاصل تھی اب وہ اسے حکومت ہند کا حصہ کہتے ہیں یہ سب واضح حقائق ہیں چین اور بھارت کے 1962کی جنگ کے بعد جب چین کے عظیم رہنما پیپلز نیشنل کانگریس کے چیئرمین لی پھنگ کے دورے کےآخری دن جیسے ہی ان کا جہاز اڑا، اگنی میزائل 2کا تجربہ کر کے انہیں پیغام دیا گیا کہ ہم آپ کے مقابلے کی طاقت ہیں ہمیں کمزور نہ سمجھو۔ چین کے رویے اور مسٹرلی پھنگ کی بہت سی کوششوں کے باوجود پاکستان کے خلاف کوئی بات نہ کہلوائی جا سکی بلکہ چینی رہنما نے دہلی میں بار بار کہا کہ پاکستان ان کا بہترین دوست ہے۔ اس سے ہندوستانی حکومت کو ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ کشمیر کےمسئلے کا مذاکرات سے حل ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح گزشتہ پچاس سال میں اہل فلسطین اپنے وطن میں رہ کر بھی غریب الوطن ہیں یہ تاریخ کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے۔ وطن کی قدر وقیمت اہل فلسطین اچھی طرح جانتے ہیں جن کی تیسری نسل آزاد وطن کی تمنا کرتے ہوئے جان دے رہی ہے جبکہ وہ اس سے پیشتر اردن، شام، عراق اور مصر سے نکالے جا چکے ہیں۔ وطن کیا ہوتا ہے اہل پاکستان کو معلوم ہونا چاہئے اور ہم اپنی آزادی کے ساتھ کیا کر رہے ہیں جو لاکھوں شہیدوں کے خون کےبدلے ملی ہے، 1969میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگائی گئی، شاید دشمن دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کتنا دم خم ہے مگر یہ مسئلہ بھی ہم نے اختلافات کی نذر کر دیا۔ رہ گیا اکیلا پاکستان اور اس کی دفاعی قوت کس کس محاذ پر لڑے۔ یہودیوں کا قبضہ مسجد اقصیٰ اور یروشلم پر برقرار ہے اور بیت المقدس تمام اسلامی ملکوں اور انصاف پسند غیر مسلموں کی طرف دیکھ رہا ہے 1948میں جب یہودیوں نے زبردستی اپنی سلطنت قائم کر کے عربوں کو نکالنا شروع کیا تو آس پاس کی تمام عرب ریاستوں کی طاقت کے باوجود اسرائیل کا پلہ بھاری رہا اوریہ خنجر عربوں کے سینہ میں پیوست ہو گیا کیونکہ لارنس آف عریبیہ کے ذریعے ترکوں اور عربوں کو لڑوا کر اس قدر کمزور کردیا گیا کہ وہ جم کر اسرائیلی حکومت کا مقابلہ نہ کر سکے، اسرائیل اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو ٹھوکروں سے اڑاتا رہا، کشمیر میں بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی کھیل کھیلا جارہا ہے جو اسرائیلوں نے فلسطینیوں کے ساتھ کھیلا تھا۔ بھارتی حکمرانوں کی پلاننگ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر کے انہیں پاکستان کی طرف دھکیل دیا جائے، یاد رہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر لکھا ہے کہ ہماری سرحدیں دریائے نیل سے فرات تک ہیں جس میں تمام عرب ممالک اور مکہ مدینہ بھی شامل ہے مگر اب اسرائیلی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم دنیا کو فتح کریں گے اور پورا عالم اسلام مل کر بھی ہمیں نہیں روک سکے گا۔ کیا حماس، الفتح، حریت کانفرنس اور دیگر مظلوموں کا خون یونہی بہتا رہے گا۔ اسرائیلی حکومت افواج پاکستان اور پاکستانی قوم کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتی ہے کیا بین الاقوامی مبصرین، اسرائیلی اور بھارتی تشدد کو روک سکیں گے ہمیں پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے والوں پر نظر رکھنا ہو گی۔ بھارتی ایجنسیاں تل ابیب میں ٹریننگ لے کر ہمارے وطن میں تخریب کاری کرا رہی ہے ایسی صورتحال میں ہمیں بے حد چوکنا رہنا پڑے گا۔ یاد رہے پاکستان کمزور نہیں ہے مشکلات کے باوجود بین الاقوامی اہمیت اختیار کررہا ہے اور یہ اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔،
.