گزشتہ 36سالوں میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست، ذہانت، خدمات اور عملی زندگی پر صرف پاکستان میں ہزاروں کتابیں اورمضامین شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے بدترین مخالفین آج بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’’بھٹو سے سیاسی اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکنــ ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگاسکتے‘‘۔ بھٹو دور کے اس وقت کے نقاد مجیب الرحمن شامی آج ہر جگہ یہ بات کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں تھے۔ آج سے 44 سال قبل بھٹو نے عالمی طاقتوں کے مذموم عزائم کی نشاندہی کردی تھی 1958ء سے 5جولائی 1977ء تک بھٹو کی جدوجہد اور پاکستان کیلئے عظیم خدمات تاریخ کا حصہ ہیں ۔ آج کی نئی نسل یہ سوال کرتی ہے کہ بھٹو کی اسقدر عظیم خدمات کے باوجود اُن کا عدالتی قتل کیوں کیا گیا؟ ہمیں اُن کو بتانا ہے کہ اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ بیسویں صدی کے سقراط تھے وہ اس عہد کے منصور تھے ،یزیدیت کے سامنے حسینیت کی للکار تھے، وہ پاکستان کے حقیقی معمار تھے۔
نومبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی مزاحمتی سیاست نے کھیتوں، کھلیانوں ،کارخانوں میں مزدوروں اور دہقانوں کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے نے امید کے نئے چراغ جلا دیئے تھے۔20دسمبر 1971ء کی شب شکستہ پاکستان میں بدترین حالات و خطرات کے باوجود انہوں نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر قائداعظم کے پاکستان کوبچالیا۔ 90ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی، پانچ ہزار مربع میل کا پاکستانی علاقہ ہندوستان سے واگزار کرایا ،عوام کیلئے منصفانہ اصلاحات کیں ،1973ء کا متفقہ آئین دیا ،اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد عالم اسلام کے اتحاد کا آغاز بنا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کرتے ہوئے فرانس سے ایٹمی پروسیسنگ کا معاہدہ اور اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقادکیا، یہ دو کام مغرب کی استعماری قوتوں کیلئے ناقابل برداشت تھے جبکہ یہی دو کام ’’بھٹو کو بے نظیر بنا گئے‘‘ یہودی سامراج نے عالم اسلام کے اس ’دیدہ ور ‘ کے خلاف سازش کی لیکن وہ ناکام رہے کیونکہ بھٹو کو قتل کرنے کے باوجود تاریخ میں بھٹو کی بے نظیر حیثیت کو ختم نہ کرسکے اوروہ شہید ہوکر امر ہوگئے ۔ انہوں نے اپنے خلاف مقدمہ قتل میں گرفتاری اور نظربندی کو چیلنج کرتے ہوئے بیگم نصرت بھٹو کی آئینی درخواست نمبر 1977/3732 میں لاہور ہائی کورٹ میں 6 مارچ 1978ء کو ایک طویل بیان جمع کرایا جو خود بھٹو نے تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے 192 نکات میں اُس سازش کو بے نقاب کیا تھا جو بیرونی قوتوں نے منتخب جمہوری حکومت کو ختم کرنے کیلئے کی تھی ۔ یہ نکات تاریخ کا حصہ ہیں جسے اب منظرعام پرآنا چاہئے۔بھٹو انقلابی تھے اور انہوں نے آمریت کے پنجرے میں قید قوم کو جمہوریت کی راہ دکھائی، اس طرح وہ قوم کے پہلے معمار ثابت ہوئے۔ ان کی انتھک کوششوں سے ملک کے غریب عوام، مزدور، کسان اور پسے ہوئے طبقے نے جینے کا ڈھنگ سیکھا، یہی وہ اسباب ہیںجس سے جاگیردار، سرمایہ دار،وڈیرے ،چوہدری ، پیر اور میرغریب عوام کی دہلیز پر آنے پر مجبور ہوگئے اور رفتہ رفتہ سیاست میں عوا م کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کرتے ہوئے فرانس سے ایٹمی پروسیسنگ کا معاہدہ اور اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقادکرنا،یہ دو کام مغرب کی استعماری قوتوں کیلئے ناقابل برداشت تھے اس لئے انھوں نے سازشیں شروع کر دیں۔
بھٹو نے 28 اپریل 1977ء کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اُس سازش کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک کو اسلام کا قلعہ بنانے کی جدوجہد کی پاداش میں سامراجی قوتیں اُن کے خون کی پیاسی ہیں۔ 29 اپریل 1977ء کو امریکی سفیر نے انھیں امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر کا پیغام پہنچایا اور خفیہ مذاکرات کی دعوت دی انھوں نے 30 اپریل 1977ء کو راولپنڈی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وہ خط عوام کے سامنے پیش کردیا ۔اس سے قبل اگست 1976ء میں ہنری کسنجر بھٹو کو لاہور میں یہ دھمکی دے چکے تھے کہ اگر فرانس سے ایٹمی پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی تو خطرناک نتائج سے دوچار کرتے ہوئے نشانِ عبرت بنادیں گے۔اس کے بعدجنرل ضیاء کے ذریعے ان کی حکومت ختم کرکے انھیں گرفتار کیا گیا اور آمر کے زیر اثر عدالتوں کے ذریعے انھیں سزائے موت دلوائی گئی۔
شہیدبھٹو کا دشمن بھی اس کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے لیڈر تھے ان کے ہم پلہ صرف سولو من بندرانا ئیکے ، مائو بندرانائیکے اورمہاتیرمحمد تھے۔ بھٹو صاحب کی طرح یہ سیاست دان خوشحال اور امیر طبقے سے ہونے کے باوجود عوامی تھے اوراستحصالی قوتوں کے خلاف سرگرم عمل رہے، معاشی اصلاحات کیلئے جاگیردار اور سرمایہ دار طبقوں کا نشانہ بنتے رہے۔ ان چاروں نے نئی سیاسی طاقتوں کی ترجمانی کی جو آزادی کے بعد کم خوشحال گھرانوں کے لوگوں میں ابھرتی تھیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی اس جذبے کو تقویت دیتی ہے کہ وہ اپنے کردار سے کتنے مخلص اور سچے تھے۔
22جون 1972ء کو جب بھٹو صاحب بھارت گئے تو اسلامی ملکوں اور عوام کی بھر پورحمایت انہیں حاصل تھی۔22جولائی 1972ء کوتاریخی شملہ سمجھوتہ عمل میں آیا۔نئے آئین اور جمہوریت کی بحالی کیلئے لگاتار اپوزیشن سے مذاکرات کئے یوں 12اگست 1973ء کو پاکستان کو تیسرا متفقہ آئین ملا۔
بھٹو صاحب 1977کے الیکشن کے بعد پی این اے کی چلنے والی تحریک کو طاقت سے دبانے کے بجائے ان سے جمہوری انداز میں مذاکرات کرتے رہے۔پروفیسر غفور احمد(مرحوم) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 4جولائی کو مذاکرات کی کامیابی کے باوجود 5 جولائی کی شب آمر ضیاء الحق نے جمہوریت پر شب خون مارا۔یوں5 جولائی 1977کو ایک آمر نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لانافذ کرتے ہوئے آئین کو معطل کردیا ساتھ ہی الیکشن کا بھی اعلان کر دیا۔اپوزیشن جماعتوں اور آمروں کے آلہ کاروں کو جب یقین ہوگیا کہ بھٹو الیکشن جیت جائیں گے تو 3 ستمبر 1977 کوان پر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا الزام لگاکرانھیں70 کلفٹن کراچی سے گرفتار کرکے لاہور منتقل کردیاگیا۔
قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں چلتا ہے لیکن یہ برصغیر کی تاریخ کاپہلا مقدمہ ہے جو براہ راست ہائی کورٹ میں چلا جس میں ایڈہاک جج مولوی مشتاق نے ضمانت منسوخ کرنے سے لے کر پھانسی کی سزا تک سارے معاملات خود دیکھے اور دوران مقدمہ آمر ضیاء الحق نے ا نہیں انعام کے طور پرہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا۔ 24 مارچ کو سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل بھی مسترد کردی۔3اپریل کو بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو صاحبہ کی آخری ملاقات کرائی گئی جو تین گھنٹے جاری رہی۔ اسی دوران غاصب ضیاء الحق نے فیصلے کی توثیق کردی۔4اپریل سحر نمودار ہونے سے پہلے پاکستان کے منتخب وزیراعظم ایٹمی طاقت کے خالق، ٹوٹے پاکستان کو جوڑنے والے اور غریب و بے بس عوام کو زبان دینے والے کو تختہ دار پر چڑھا دیاگیا۔
بھٹو اور بھٹو ازم آج بھی کروڑوں دِلوں میں زندہ ہے اور ان کی بے پناہ محبت موجود ہے ۔ان سے محبت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے جس میں مزدوروں ، کسانوں سمیت ملک کے غریب اورکچلے ہوئے عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیئے جائیں اور سب سے بڑھ کر کرپشن سے پاک معاشرہ بنایا جائے کیونکہ بھٹو ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تمام برائیوں کے راستے کرپشن سے ہوکر گزرتے ہیں۔