• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز ایک پراپرٹی ڈیلر سے ملاقات ہوئی وہ بتا رہا تھا کہ پلاٹ خریدتے وقت مختلف لوگوں کی کیا ترجیحات ہوتی ہیں۔مثلاً کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا پلاٹ کسی پارک کے مدمقابل ہونا چاہئے حالانکہ اس کی قیمت عام پلاٹوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے مگر حیرت انگیز طور پر کچھ لوگ قبرستان کے بالکل سامنے پلاٹ چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس طرح خدا ہر وقت یاد رہتا ہے اور اپنے فانی ہونے کا احساس قوی ہو جاتا ہے ۔
پلاٹ اور پارک آمنے سامنے ہونے کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ آپ اپنے گھر کی کھڑکی میں سے گلشن کا نظارہ کر سکتے ہیں آکسیجن بھی دوسرے مقامات کی نسبت زیادہ فراواں ملتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چہل قدمی کے لئے آپ کو بہت سے غبار آلود رستوں سے نہیں گزرنا پڑتا جبکہ پارک سامنے ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ گھر سے قدم باہر رکھتے ہی پارک شروع ہو جاتا ہے تاہم اس کی خرابی کی طرف یار لوگوں کا دھیان نہیں جاتا کہ پارک میں مشتبہ لوگ بیٹھے رہتے ہیں اور آپ جب اہلخانہ کے ساتھ کہیں باہر جانے کے لئے گھر کو تالہ لگاتے ہیں تو مشتبہ لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں چنانچہ وہ بآسانی واردات کر جاتے ہیں ڈاکوئوں کی بات الگ ہے لیکن چوریوں کا پس منظر عموماً یہ ا طلاع ہی ہوتی ہے کہ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ۔
تاہم قبرستان کا ہمسایہ بننے کی خواہش قدرے سمجھ نہیں آتی آپ کے کانوں میں گھر کے سامنے سے گزرنے والے جنازوں کے شرکاء کی ’’کلمہ شہادت‘‘ کی دلدوز صدائیں مسلسل سنائی دیتی رہیں گی اس پر بات آگے چل کر کرتا ہوں کہ کیا خدا یاد رکھنے کے لئے قبروں میں لیٹے مردوں سے مسلسل رابطہ ضروری ہے؟ پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ بہت سے لوگ واقعی یہی چاہتے ہیں بلکہ کچھ تو دو قدم اس سے بھی آگے نظر آتے ہیں، آپ یقین جانیں کہ میرے ایک دوست نے اپنی زندگی میں اپنی قبر بنائی ہوئی ہے اور وہ ہر اتوار کو اس میں لیٹ کر اخبار پڑھتا ہے۔ کئی لوگ اٹھتے بیٹھتے موت کو یاد کرتے ہیں اور اس کی تلقین بھی کرتے ہیں، فیس بک اس سے بھری پڑی ہے، مجھے ایسی پوسٹ آئے دن موصول ہوتی ہیں جن میں تلقین کی گئی ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی موت ہر وقت یاد رکھنی چاہئے۔ میرے کئی ملنے والوں کے چہروں پر تو موت لکھی بھی نظر آتی ہے۔ ایک صاحب ہر دوسرے تیسرے دن بہاولپور روڈ کا چکر لگاتے ہیں اور قبروں کے ڈیزائن دیکھتے رہتے ہیں تاہم ابھی تک انہیں اپنی قبر کے لئے کوئی ڈیزائن پسند نہیں آیا۔ میں نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میںایک قبر میں ایک اژدھا دکھایا گیا ہے جو مردے کو دفن نہیں ہونے دے رہا۔ایک اور ویڈیو میں ایک قبر میں سے آگ کے شعلے اٹھتے دکھائے جا رہے تھے، مقصد ان میں بھی یہی بتانا مقصود تھا کہ گناہ گاروں کو عذاب قبر کی ہولناکیوں سے آگاہ کیا جائے۔ مجھے اس مرحوم اور اس کے لواحقین پر ترس آتا ہے کہ ان کے کسی بزرگ یا عزیز کے متعلق ابھی سے فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ وہ انتہائی ناپاک آدمی تھا اور اس کا فیصلہ روز حشر سے پہلے ہی ہوگیا ہے اور یوں اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے، آپ سوچیں اس مرحوم کے لواحقین معاشرے میں منہ دکھانے کے کہاںقابل رہے ہوں گے، حالانکہ متعدد گورکنوں کے جو انٹرویو مختلف چینلز سے نشر ہوئے یا اخبارات میں شائع ہوئے ان کے مطابق انہوں نے اور ان کے بزرگ گورکنوں نے کبھی کسی قبرستان میں ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا جو اَن ہونا ہو!
اور اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ کیا خدا صرف قبرستان کے قرب ہی سے یاد آتا ہے؟ موت کے ان عاشقوں کوخدا اس وقت یاد کیوں نہیں آتا جب وہ دو نمبر کاروبار کر رہے ہوتے ہیں، جب وہ بچوں کے دودھ میں زہر ملا رہے ہوتے ہیں ، جب وہ کسی کی جائیداد پرقبضہ کر رہے ہوتے ہیں، جب وہ ناجائز فائلوں پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں، جب وہ انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں اور ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم قرار دے رہے ہوتے ہیں، جب وہ لوگوں کے قتال کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں، جب وہ منبر رسول ؐ سے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے برسرپیکار کرنے کے لئے زہریلی تقریریں کر رہے ہوتے ہیں، جب ریاستی یا غیر ریاستی سطح پر عوام دشمن اور ملک دشمن رویے اختیار کئے جا رہے ہوتے ہیں؟ ہمیں ان لمحوں میں کبھی خدا یاد نہیں آتا!
خدا کو یاد رکھنے اور موت کو اٹل سمجھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنا جائے، منافقت اور ریا کاری کی امر بیل دل سے اکھاڑ پھینکی جائے۔ اور ہاں کوئی حرج نہیں اگر آپ قبرستان کا چکر بھی لگا لیا کریں، مگر اس کے لئے اپنی زندگی میں اپنی قبر بنا کر اور اتوار کو اس میں لیٹ کر اخبار پڑھنا بہر حال ضروری نہیں!



.
تازہ ترین