• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عربی عمامے اور بند قبائیں تو کبھی کبھار دکھائی دیتی تھیں، لیکن اب گاڑیوں پر الباکستان نامی ملک کی نمبر پلیٹس کافی دکھائی دیتی ہیں۔ اور کوئی نہیں کہ ان کا چالان کرنے کی جرأت کرے۔مقامات مقدسہ سے ہمارا گہرا روحانی و جذباتی تعلق ہی ایسا ہے کہ اُس کے کیلئے ہم جان تو کیا سبھی کچھ وار سکتے ہیں، بھلے اسلاف کا اور خودان کے مکتب کا اس سے کوئی سمبندھ ہی نہ ہو۔ ارضِ محمد سے ہماری قلبی وابستگی اپنے دامن میں ہر نوع کی وارفتگی لئے ہے۔ پھر سوال جواب کیسا؟ جو مزاجِ یار میں آئے، اُسی میں ہماری اِچھا۔ ہمارے عرب بھائیوںنے 34 ملکوں کے فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا ہے، تو بھلا الباکستان والوں سے رضا حاصل کرنے کا تکلف کیسا؟ جب معاملہ یک جان اور دو قالب کا ہو تو ہمارے اپنےعرب بھائی جھٹ آمنا و صدقنا کی صدائیں بلند کرنے سے باز کیوں رہتے؟ وفاداری بشرط استواری ہی تو اصلِ ایماں ہے۔ جب وزیر خارجہ تشریف لائے تو ایمان والوں کو کچھ دھچکا سا لگا کہ ان کے ایلچی بھی کیسے کہ داڑھی نہ مونچھ۔ اندیشہ ہوا کہ وہ ظاہر میں لبرل اور باطن میں ہمارے کلین شیو علامہ اقبال کے مردِ مومن۔ اور خارجہ محکمے والے ایسے بچھے کہ جو بیان دیا ایسا طائرانہ کہ ہمارے محبوب تو جو چاہے سمجھ لیں، لیکن ہمارے جیسے کوتاہ بیں سر کھجا کر رہ جائیں۔ ابھی وہ خیر سے سدھارے ہی تھے کہ ولی عہد ، جن کے پاس خزانہ بھی ہے اور دفاع کا منصب بھی، کی آمد آمد ہے۔ باچھیں ہیں کہ کھلی جا رہی ہیں اور دل ہے کہ ڈوبنے کو۔ ایک طرف اتنا بڑا خزانہ کہ قارون بھی رشک کرے اور الباکستان میں بوریا بھی میسر نہیں۔ دوسری جانب، مسلم دُنیا کی واحد ایٹمی لاسیف الذوالفقار۔ مملکتِ خداداد۔ بات تو دوآتشے سے بھی زیادہ آتشیں ہوئی۔ پیمرا میں ہمارے دوست ابصار عالم کا ماتھا ٹھنکا اور اُس نے دی ٹیلی وژن والوں کو دہائی کہ احتیاط، کہیں نازک آبگینے کو ٹھیس نہ پہنچ جائے۔ لیکن یہ حزبِ اختلاف کیوں اتنی حسد کی آگ میں جل کر ایمان خراب کرنے پر تلی ہے؟ پہلے بھی اِنہوں نے یمن میں اچھی خاصی دوبئی لگتے لگتے خراب کی۔ اور اب غالباًشاہوںکی ممکنہ عنایت سے خوفزدہ ہو کر کہ کہیں ترقی کا پہیہ چل نکلا تو ترقی کے مخالفین کا اگلے انتخاب میں بوریا بستر گول نہ ہو جائے۔ بے خبر مخالفین کو کیا خبر کہ آج کل توانائی مندے کا شکار اور عرب خزانہ 15 فیصد خسارے سے دوچار!
لیکن، بھئی خلیجی فوجی اتحاد کیلئے یہ داعش کا ہَوا کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے؟ چوہدری نثار اور رانا ثناء اللہ کی شہادتوں کے بعد بھی اس کی موجودگی کی درفطنی کیوں! ہمارے ہاں تو ویسے بھی دہشت گردوں کی صفائی کا سال چل رہا ہے۔ اُس سے فراغت نہ بھی ملی، تب بھی برادر کو سکھلانے کے ہنر ہائے دہشت کُشی کی ہمارے ہاں کافی فراوانی ہے۔ جو ہم خیر سے اب بھارت کو بھی دینے چلے ہیں، تو برادر ملک سے زیادہ اُن کا کون حقدار ہو سکتا ہے۔ لیکن معاملہ داعش کا نہیں۔ کچھ اور ہے اور دال میں کچھ کالا کالا بھی۔ جو بات ہضم نہیں ہو پا رہی وہ یہ ہے کہ داعش تو ہے ہی ہمارے خلیجی ملکوں کی ہم مسلک اور ہم مکتب اور اُن کے مسلکی اور علاقائی دشمنوں کی دشمن۔ داعش اگر برسرِپیکار ہے تو دمشق کے سیکولر بشار الاسد کے خلاف، جن کا اپنا علیحدہ سے غیرسنی مسلک ہے؛ بغداد کے شیعہ حکمرانوں کے خلاف اور جہاں کہیں اُسے کوئی شیعہ نظر آتا ہے وہ واجب القتل، بھلے وہ سعودی عرب ہی کا باشندہ کیوں نہ ہو۔ شیعوں پر سعودی عرب میں حملے داعش ہی نے کئے ہیں ۔خلیفہ ابوبکر البغدادی، جو اسلامیات میں پی ایچ ڈی ہیں، بھی تو عربوں کی زیرِ قیادت اسلامی نشاۃِ ثانیہ کا احیاء چاہتے ہیں اور اُسے پذیرائی بھی عراق و شام کے سُنّی العقیدہ قبائل میں ملی ہے۔ اور ہمارے صحرائی برادر بھی عربوں کی زیرِ قیادت سنی اُمت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ داعش اور ہمارے عرب بھائیوں کے پس منظر متفرق ہونے کے باوجود مماثلت بھی رکھتے ہیں۔ الزام ہے خلیجی ملوکیت کے قیام میں برطانیہ نے 1932ء میں ہاتھ بٹایا تھا اور اس کی توثیق امریکی صدر روز ویلٹ نے 1945ء کے معاہدے کے تحت کی، جس کی تجدید جارج بش نے 2005ء میں کی۔ اسلامی ریاست عراق و شام امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی پہلے صدام حسین اور اب بشار الاسد کو نکال باہر کرنے کی خوفناک تباہی کے ہاتھوں پیدا ہونے والے خلا کی مرہونِ منت ہے۔ کہیں یہ تو نہیں کہ جھگڑا شاید قیادت پر ہے کہ کون عرب سنی اُمہ کو اسلاف کی راہ دکھلائے۔ داعش یا پھر خلیجی شاہ۔ یہ ابوبکر بغدادی بھی بہت کایاں آدمی لگتا ہے اور دمشق اور بغداد پر قبضہ کرنا چاہتا ہے کہ جانتا ہے کہ خلافہ کی یادیں اس سے تازہ کی جا سکتی ہیں کیونکہ دمشق بنو اُمیہ کی خلافت (661-750) اور بغداد بنوعباس کی خلافت (750-1258) کا دارالخلافہ رہا۔ ظاہر ہے کہ لائق صد احترام ہمارے عرب بھائی ابوبکر بغدادی کو ایسا کرنے دینے سے رہے۔ لیکن سنی قیادت کے اِن عرب دعویداروں کے علم میں ہونا چاہیے کہ 160 کروڑ مسلمانوں میں عربی النسل مسلمان صرف 15 فیصد ہیں جبکہ غیرعرب قوموں اور نسلیتوں کے مسلمان 85 فیصد اور وہ الباکستانیوں کی طرح اپنی قومی و ثقافتی شناختوں کو چھوڑنے پر مائل نہیں۔
تو پھر یہ 34 ملکوں کا سُنّی اتحاد کیسے چلے گا جبکہ عربوں کی تقسیم کے باعث اسرائیل کے خلاف عرب لیگ بھی نہ چل پائی۔ اُمہ کے الہامی اور الوہی تصور کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا کر کونسی نظریاتی لڑائی لڑی جا رہی ہے، جس کے لئے الباکستانی مرے جا رہے ہیں۔ داعش جیسی شدت پسند اور دہشت گرد بلا جو سبھی قومی مسلم ریاستوں کی خلافہ اور اسلاف کے نام پر جغرافیائی اور قومی بنیادیں ہلا رہی ہے۔ عرب بھائیوںکے جونظریاتی امام ہیں،داعش اور ان کے نظریاتی ماخذ تو ایک ہی ہیں۔ داعش و دیگر دہشت گردوں کے خلاف اگر کوئی شام میں کھڑا ہوا تو وہ ہے بشار الاسد اور عراق میں اُسے اگر پسپائی ہو رہی ہے تو وہ شیعہ مکتب فکر عرب حکومت اور اُس کی افواج کے ہاتھوں۔ جبکہ برادر ملک نے یمن میں حُوثی زیدیوں (جو شیعہ سے زیادہ سنیوں کے قریب ہیں) کے خلاف فوج کشی کر کے القاعدہ اور داعش کیلئے جگہ پیدا کر دی ہے۔ عراق میں سُنّی قبائل کو کمک بھجوائی جو داعش کے ہتھے چڑھ گئی۔ امریکیوں کے ساتھ مل کر کرنل معمر قذافی کو عبرت کا ایسا نشان بنایا کہ اب لیبیا کی خانہ جنگی کے بطن سے داعش کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں: مارا گھٹنا، پھوٹے آنکھ! تو پھر اصل جھگڑا کیا ہے؟ کیا یہ عرب و عجم کی تاریخی کشمکش تو نہیں؟ یا پھر یہ بنو اُمیہ اور بنو ہاشم کے پرانے جھگڑے کی فرقہ وارانہ لڑائی ہے؟اگر خلیجی ملکوں نے شدت پسند نظریات کو پھیلایا اور اُس کی تجسیم داعش کی صورت گری میں ہوئی، تو ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ہمسایہ ایرانی بھائیوں نے کیا عراق، کیا شام، کیا یمن اور کیا لبنان سبھی جگہ ایسی ملیشیائیوں کی سرپرستی کی جو اپنی طرح کی شدت پسند اور فرقہ وارانہ تنظیمیں ہیں۔ اب جب ایران نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتے کے بعد عالمی پابندیوں سے آزاد ہو رہا ہے اور مشرقِ وسطی سے وسطی اور جنوبی ایشیا تک اُس کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے تو عرب دنیا کو خوف تو لاحق ہونا ہی ہے جبکہ اُن کے کِرم خوردہ سیاسی نظام کا کوئی مستقبل نہیں اور اس کے مدمقابل ایران آمرانہ ملائیت کے باوجود زیادہ عوامی اور حرکت آفرین مملکت ہے۔ ایرانی آمرانہ ملائیت کا متبادل زیادہ لبرل اور جمہوری ایران ہوگا جبکہ سعودی بادشاہت کا متبادل جمہوریت نہیں، کوئی اور داعش کی طرح کا خوفناک نمونہ ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے علاقائی قیادت کے جھگڑے میں مسلکی وابستگیوں کا خطرناک استعمال، مسلم دُنیا کو خون آشام فرقہ وارانہ جنگوں میں ایسا دھکیلے گا کہ اللہ کی پناہ۔ پہلے ہی مسلم دُنیا جہالت، پسماندگی، اور قبائلی تعصبات کی لپیٹ میں ہے اور عالمی طاقتیں جلتی پر خوب تیل ڈال رہی ہیں اور مسلم دُنیا کے فریقین اُن کے ہاتھ میں کھلونا بننے کو تیار۔ عرب و عجم اور سُنّی و شیعہ کے جھگڑے پھیلا کر سوائے تباہی کے کچھ ہاتھ میں آنے والا نہیں۔ الباکستان والو، ہوشیار! پاکستان کی فکر کرو اور پاکستانی بنو۔ یہ جو ابھی سے ایران موافق اور عربی حمایت میں جلسے جلوس نکلنے شروع ہو گئے ہیں وہ ایسی خوفناک صورت لے سکتے ہیں جو ہم عراق و شام میں دیکھ چکے ہیں۔ ہم برادر عرب ملک کو ناراض کر سکتے ہیں نہ اپنے عزیز ہمسایے ایران سے جھگڑا مول لے سکتے ہیں۔ اس جنگ سے باہر رہنے میں بقا ہے۔ بلکہ اسے روکنے میں ہی سبھی کی فلاح!
تازہ ترین