• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وسائل اور آبادی کی وجہ سے پنجاب پاکستانی ریاست میں ایک غالب عنصر ہے ۔ پنجاب کو کنٹرول کرنے والا پاکستان پر حکومت کرتا ہے ۔ پنجاب کے دامن پردمک رکھنے والے بہت سے ہیرے ہیں۔ بلھے شاہ، وارث شاہ اور شاہ حسین(فہرست طویل ہے)، سب کا تعلق پنجاب سے تھا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر موجود کہ کیا اُن کی لافانی شاعری نے پنجابی ذہن پر کوئی اثر چھوڑا؟شاعری کی کہکشاںصرف انہی ستاروں تک محدود نہیں۔ اقبال، فیض، منیرنیازی، ساحر لدھیانوی اور کئی ایک نام ، اور پھر گانوں اور موسیقی کی دنیا کے لافانی نام ، کے ایل سہگل ، محمد رفیع، نورجہاں، ثریا، شمشاد بیگم ، استاد بڑے غلام علی خان، مدن موہن اور دیگر بہت سے اساتذہ اور ماہرین ِ فن کا تعلق اسی زرخیز دھرتی سے تھا۔ سہگل اور رفیع اپنے میدان (موسیقی)اور اقبال اور فیض نے دوسرے میدان (شاعری) میں نئی روایت کی طرح ڈالی، اوربعد میں آنے والوں نے اُن کی پیروی کی ۔ تاہم پنجاب کی سرزمین سے سیاسی میدان میں نئی راہیں نکالنے اور نئی منازل کا تعین کرنے والوں نے جنم نہیں لیا۔ ایک استثنیٰ ناقابل ِ فراموش سردار بھگت سنگھ کو البتہ حاصل ہے جوآزادی کے عظیم مجاہد تھے اور جن کا مجسمہ شادمان چوک لاہور میں نصب ہونا چاہئے جہاں انگریز سرکارنے اُنہیں پھانسی دی تھی۔
مختصر یہ کہ پنجاب کے مسئلے کا تعلق شاعری او ر فن کے ورثے سے نہیں۔اس میدان میں اس کی پگڑی پر سرخاب کے پرموجود ہیں۔ مسئلے کی جڑ اس کی تاریخ میں ہے۔ دیگر میدانوں میں بہت سے نابغہ ہائے روزگار پنجاب کی دھرتی سے پیدا ہوئے ، لیکن یہاں کسی بادشاہ،فوجی جنرل یا کسی کپتان نے آنکھ نہ کھولی۔ لے دے کے صرف ایک ہی مثال ہے ، جو مہاراجہ رنجیت سنگھ ہیں جنہوں نے پہلی اور آخری سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ تاریخ کے باقی صفحات خالی ہیں۔ جغرافیے کا قہر تھا کہ دہلی فتح کرنے کےلئے یلغار کرنے والے ہر حکمران نے لاہور میں پڑائو کیا، لوٹ مار کرنے والے لشکر پنجاب کے میدانوں سے گزرتے ہوئے دہلی اور دیگر زرخیز میدانوں کا رخ کرتے ۔ اُنہیں پانچ دریائوں کی اس سرزمین پر کسی قابل ِ مزاحمت کا سامناکبھی نہ کرنا پڑا۔ہزاروں کہانیوں اوررومان پرور داستانوں کواپنے سینے پر سجائے ، لاہور ایک ایسی محبوبہ کی مانندتھا جس کا حسن کسی نگاہ کو رد نہیں کرتا۔ اس کا دامان ِ ظرف ہر شب گزیدہ کے لئے وا تھا۔
ملتان ، جسے پنجاب کی اشرافیہ ایک نرم خو مزاج کا حامل شہر سمجھتی ہے ، نے بہرحال سکندر اعظم کے سامنے مزاحمت دکھائی۔ اسی شہر کی دیواروں کے قریب دنیاکا وہ عظیم فاتح زخمی ہوا۔ اس پر یونانیوں نے مشتعل ہوتے ہوئے شہر میں وسیع پیمانے پر قتل ِعام کیا ۔ اس کے بعد ملتان نے انگریز راج کے سامنے بھی مزاحمت کی، اور ایک شدید جنگ کے بعدہی انگریز اس شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ لاہور کی تاریخی شہرت کی وجہ دیگر چیزیں ہیں۔ اس کے شاندار باغات، راوی، پرسکون فضااور آفت ِ جاں رقاصائوں کی دلفریب ادائیں۔ تاہم اس اسلامی جمہوریہ کے کارناموں میں سے ایک اس شہر کے باغات کو تباہ کرنا، راوی کو انمٹ غلاظت سے بھردینا اور شہر کے تفریحی اور دلفریب حصوں میں جوتوں اور کھسوں کی دکانیں کھول لینا ہے ۔ اب ماسٹر مدن ( یہ مدن موہن نہیں ہیں) کے لافانی گیت ۔۔۔’’راوی دے پرلے کنڈے وے مترا‘‘کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی پر لطف الف لیلہ اپنی شاموں میں سموئے کسی بڑے شہر کو فاتحین نے اس طرح تباہ نہیں کیا ہوگا جس طرح ہمارے حکمرانوں نے تاریخی بادشاہی مسجد کے گرد ونواح کی گلیوں پر نام نہاد ترقی کا جھاڑو پھیر دیا ہے ۔ لاہور کا کسی دشمن فورس نے لینن گراڈ کی طرح محاصرہ نہیں کیا۔ جنگ وجدل دہلی میں ہوتا رہا ، لیکن لاہور جنگی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا۔ اس کی بربادی کی لکیر بعد میں آنے والے حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی۔
اس کی طویل تاریخ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے یہاں ہتھیار استعمال کیے ۔ اُنھوںنے سکھوں کے مختلف دھڑوں کو یکجان کرتے ہوئے ایک طاقتور سلطنت قائم کی ۔اُن میں اتنی عقل ضرور تھی، چنانچہ اُنھوںنے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار نہ کی ۔ وہ جانتے تھے کہ کمپنی کی عسکری سکت اُن سے کہیں زیاد ہ ہے ۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہاراجہ کے جیتے جی لاہور پر اپنی لالچی نگاہ نہ ڈالی ۔ وہ بھی سکھ بازوں کی دھاک سے واقف تھے ۔ جس دوران مہاراجہ نے برطانوی فورسز کے ساتھ امن کی پالیسی پر عمل کیا، اُنھوں نے اپنی سلطنت کو کشمیر کی طرف توسیع دی جہاں اُنھوںنے گلاب سنگھ کو حکمران مقرر کیا ۔ گلاب سنگھ اُنہیں سالانہ زر ِ تاوان ادا کرتا تھا۔ اس دوران مہاراجہ نے نوشہرہ کے قریب جنگ میں افغانوں کو شکست دے کر پشاور پر قبضہ کرلیا۔ جب مہاراجہ کی وفات کے بعد برطانیہ نے پنجاب پر قبضہ کیا تو اُنہیں وسیع وعریض سرحدیں رکھنے والی سلطنت مل گئی ۔ دوسرے الفاظ میں ، پشاور ، قبائلی علاقہ اور ڈیورنڈ لائن ہمیں اپنی تاریخ سے نہیں، مہاراجہ کے کارن وراثت میں ملے ۔ اس حوالے سے ہم اس جنگجو سکھ بادشاہ کے مشکور ہیں۔
جب تقسیم ِ ہند کی لکیر کھینچی گئی تو مشرقی بنگال ہم سے ایک ہزار میل دوری پرتھا، چنانچہ مغربی پاکستان میں غالب عنصر پنجاب ہی تھا۔ اُس وقت مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کو آبادی کے اعتبار سے قدرے برتری حاصل تھی لیکن اصل طاقت پنجاب اور اردو بولنے والی بیورہ کریسی اور فوج کے پاس تھی۔ پنجابی جاگیردار اشرافیہ نے بھی اسی دھن کو اپنا لیا جو نئی ریاست کی تخلیق کے بعد وجودمیں آنے والے کولیشن کی نغمگی تھی۔ فکری مہمیز بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے اردو بولنے والے طبقے سے ملی۔ یہ افراد ہلی ، لکھنو، بھوپال اور حیدر آباد دکن کی ثقافت کے وارث تھے ۔ پاکستان فوراً ہی مغرب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فوجی اتحادیوں میں امریکہ کے ساتھ شریک ہوگیا۔ مذہبی تصورات کی آبیاری اور سیاسی سرپرستی( جو نوآبادیاتی دور سے کم نہیں تھی)کا دھارا مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کی طرف بہتا دکھائی دیا۔ پنجابی عنصر جو پہلے ہی غالب تھا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مزید طاقتور ہوگیا۔ ضیا دور میں پی پی پی کے مقابلے پر لانے کیلئے کسی سیاسی طاقت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ چنانچہ نگاہ ِ انتخاب اُن پر پڑی جو آج پی ایم ایل (ن) کی قیادت کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں، اور گزشتہ تیس برس سے کسی نہ کسی صورت میں ملک پر حکومت کررہے ہیں۔
آج ہمارے سامنے اہم ترین سوال یہ ہے کہ ایسی تاریخ رکھنے والے حکمرانوں کی رہنمائی میں پاکستان کبھی بھی ایک جدید ریاست نہیں بن سکتا۔ ایک ایسی ریاست، جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، لبرل سوچ اور منطق کی گنجائش موجودہواور جس کے شہریوں کو جدید تعلیم اور سماجی ترقی کے مواقع میسر ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاناما کیس انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ یہ اس ملک کا مقدر بدلنے کے لئے میسر آنے والا ایک موقع ہے۔

.
تازہ ترین