• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
در ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے سانحہ حضرت لال شہباز قلندر کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ہمارے دونوں سربراہان نے کہا ہے کہ قلندر لال کے مزار پر حملہ خوشحال پاکستان اور قوم کے مستقبل پر حملہ ہے۔ربع صدی سے زائد عرصہ ہوگیا ہم اپنوں کی لاشیں اور جنازے تو اٹھا رہے ہیں مگر اس سوچ، ڈاکٹرائن اور ریاستی پالیسیوں کو مکمل طور پر رد نہیں کر رہے جس کا نتیجہ اس نوع کی تباہی اور بربادی ٹھہرا ہے۔ محسن نقوی جو خود بھی فرقہ واریت کا نشانہ بنے تھے انہوں نے اس قوم کی بربادی کا نوحہ یوں لکھا تھا کہ
روز کیا تازہ جنازے کا جلوس!
روز اک غم کا مہورت کیوں ہے؟
انسانوں کے عقیدوں اور امیدوں پر حملہ کرنا انتہائی قبیح اور گھناونا عمل ہے،گناہ اور ثواب کی صورت میں اس کا فیصلہ یقیناً رب کریم کریں گے مگر دنیاوی اعتبار سے ایسے سفاک قاتلوں کو نشانِ عبرت بنانا ریاست کا اولین فرض ہونا چاہیے۔ برصغیر میں بسنے والے لاکھوں افراد میں مسلمان، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جو ان کے عقیدت مند تھے۔ وہ ایک برگزیدہ شخصیت تھے۔
پاکستان سمیت بنگلہ دیش اور بھارت کے فنکاروں نے بھی قلندر لعل ؒسے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ قلندر ؒ سے منسوب مشہور ِزمانہ کلام ’’دمادم مست قلندر‘‘ ابتدائی طور پر حضرت امیر خسروؒ نے لکھا تھا جس میں بعدازاں بلھے شاہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ روایت ہے کہ مرشد لعل سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے قوالی کی پہلی بندش امیر خسرو نے ہی کی تھی جس کی استھائی میں ’’دمادم مست قلندر‘‘ کی ترکیب استعمال کی گئی تھی۔ وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قلندر لالؒ ایک جلالی درویش تھے جن کا چہرہ انور سرخ تھا، وہ لال رنگ کا لباس پہنتے تھے۔ انہیں عربی، فارسی، ترکی، سندھی اور سنسکرت جیسی زبانوں پر مہارت حاصل تھی، وہ شاعر اور فلسفی بھی تھے اور دنیاوی الائشوں سے ماوراء عشق ِحقیقی میں مست رہتے تھے جس کے باعث عقیدت مندوں نے ان کے لئے دمادم مست قلندر کا نعرہ بلند کیا تھا۔ قلندر لعلؒ کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا آپ کے آباواجداد عراق سے ایران کے علاقہ مشہد المقدس میں ہجرت کر گئے جو اس وقت علم و ہنر کا مرکز سمجھا جاتا تھا، بعد ازاں آپ کے بزرگ افغانستان کے علاقہ مروند میں آباد ہوگئے۔
محفل سماع میں تو قوال حضرات قلندر لعلؒ سے عقیدت کا اظہار سینکڑوں سال سے کر رہے تھے چونکہ ان دنوں آوازوں کو ریکارڈ کرنے کی تکنیک ایجاد نہیں ہوئی تھی اس لئے وہ سب کچھ محفوظ نہ کیاجاسکا۔ 1886میں الیگزینڈر گراہم بیل نے آواز ریکارڈ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا جس کے بعد 1902میں متحدہ ہندوستان میں بھی ریکارڈنگز شروع ہوگئی۔ برصغیر میں کوئی ایسا گانے والا نہیں جس نے قلندر لعلؒ سے عقیدت کا اظہار نہ کیا۔ پیٹالہ گھرانے کے استاد کرنیل خاں جرنیل خاں، استاد بڑے غلام علی خاں، استاد برکت علی خاں، استاد کالے خاں، استاد توکل خاں، استاد نزاکت استاد سلامت علی خاں، استاد امانت علی استاد فتح علی خاں، استاد چھوٹے غلام علی خاں، ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم اور استاد حسین بخش گلوخاں سمیت دوسرے خاں صاحبان فن نے مختلف راگوں کی بندشوں میں قلندر لعل سے عقیدت کا اظہار کیا۔ یوں تو سبھی گانے والوں نے اپنے بہترین انداز سے قلندر لعل ؒسے اپنی عقیدت کا اظہار کیا مگر دھمال کی صنف خالصتاً جھولے لال سے منسوب ہوئی۔ گانے والوں میں ملکہ ترنم نورجہاں اور استاد نصرت فتح علی خاں ایسے گانے والے ہیں جن کے انداز ِنوا سے دھمال سے سُروں اور لے کاری کی نئی ترکیبیں منسوب ہوئیں ۔60ء کی دہائی میں موسیقار اختر حسین اکھیاں کے بھائی ماسٹر عاشق حسین نے اس صوفی لوک دھن کو نئے انداز سے کمپوز کیا۔ 70کی دہائی کے آغا زمیں اداکار وفلمساز اسد بخاری نے موسیقار نذیر علی سے اپنی بعض فلموں کے لئے دھمالیں کمپوز کرائیں ۔نذیر علی چونکہ لال شہباز شریف قلندر سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے سچے دل سے شاہکار دھنیں تخلیق کیں۔ ’’حسینی لال قلندر میرے غم ٹال قلندر‘‘ ’’شہباز کرے پرواز‘‘ اور ’’لاج میری پت رکھیو بلا جولے لعلن، دمادم مست قلندر‘‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ یہ دھمالیں ملکہ ترنم نورجہاں اور گلوکار رجب علی نے گائیں۔ موسیقار نذیر علی کو پنجابی دھمال کا موزاٹ کہا جاتا ہے۔ عابدہ پروین، رونا لیلیٰ، حمیرا چنا اور صنم ماروی نے بھی دھمال میں نام پیدا کیا ہے۔ 80کی دہائی میں استاد نصرت علی خاں کا نام بھی قلندر لعل ؒ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ہوا۔ گزشتہ ربع صدی کے عرصہ میں برصغیر میں استاد نصرت فتح علی خاں اور میوزک ڈائریکٹر ایم ارشد کا فیوژن (دم مست قلندر) سے بڑا تجربہ دوسرا نہیں ہوسکا۔ دھمال کی اسی استھائی کی دھن استاد نصرت نے بنائی تھی جبکہ اسے جدید سازوں سے سجانے کا آئیڈیا ایم ارشد کا تھا۔ بالی وڈ پر آج بھی استاد نصرت کے میوزک کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ قلندر لال سے عقید ت کا اظہار غیر مسلم بھی کرتے ہیں آشا بھوسلے، شنکر مہا دیون، ریچا شرما، آشا اتھم، سونونگھم، میکا سنگھ اور دلیر مہدی سمیت بالی وڈ کے دیگر سنگرز بھی کنسرٹ میں آخری آیٹم کے طور پر دھمال پیش کرتے ہیں جس میں لال شہباز قلندر سے والہانہ عقیدت کا اظہار کیاجاتاہے۔
ستمبر 2008میں آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے تو میرے دوست اور بھارتی بھنگڑا کنگ دلیر سنگھ مہدی نے مجھے ٹیلی فون کیا۔ دلیر مہدی نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی آواز میں حمد، نعت اور ایک دھمال ریکارڈ کی ہےجو وہ پاکستان کو تحفہ میں دینے چاہتے ہیں۔ میں نے صدر زرداری سے رابطہ کیا تو انہوں نے نہ صرف یہ تحائف وصول کرنے کی حامی بھری بلکہ دلیرمہدی کو سٹیٹ گیسٹ کے طور پر پاکستان آنے کی دعوت دے دی۔ نومبر 2008میں اور دلیر مہدی صدر زرداری سے ملاقات کرنے ایوان صدر گئے۔ ملاقات کے دوران دلیر مہدی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی گائی دھمال کی ویڈیو ریکارڈنگ سیہون شریف قلندر کے مزار پر کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب صدر زرداری نے کہا تھا کہ سیہون شریف آپ کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی تو دلیر مہدی کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ سانحہ سیہون شریف میں کتنے انسان جان سے گئے اور کتنے اپاہج ہوئے یہ گنتی ابھی جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے والد سید عبداللہ شاہ بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے، دونوں باپ بیٹے کے انتخابی حلقے میں سیہون شریف نمایاں اور متبرک مقام ہے۔ خودکش حملہ میں سینکڑوں خاک نشینوں کا خون بہا اور اس سانحے میں تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی موت سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ وہاں کے سیاسی سیدوں نے پدری اور پسری وزارت اعلیٰ کے باوجود سیہون شریف میں نہ ہسپتال بنایا اور نہ سڑکیں کہ کسی سانحہ اور ناگہانی آفت کی صورت میں عافیت کے مقام پر پہنچا جاسکے !!!ق


.
تازہ ترین