• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں حالیہ دہشت گردی کی لہر اور ہماری ذمہ داری مولانامحمد حنیف جالندھری ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان

وطن عزیزمیں گزشتہ چھ سات دن سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھی ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے، صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب، کوئٹہ اور سندھ کے سہون شریف میں دین دشمن اور وطن دشمن عناصر نےپے در پےحملےکئےجن میںسیکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
اس حقیقت میںایک سے زائد رائے نہیں ہو سکتی کہ انسانیت، ہمارے ملک وملت اور ہمارے امن وامان پر یہ حملے ان عناصر کی طرف سے ہیں جو ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے، جوپاکستان کی بڑھتی ہوئی ترقی، پاکستان کے استحکام اور یہاں کے پرامن ماحول کو کسی بھی طرح برداشت کرنے کےلیے تیار نہیں۔ وطن عزیز میں دشمن کے عزائم کو قلع قمع کرنے کےلیے ملک کے مختلف حصوں میں آپریشن کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، اس سے بہت حد تک امن و امان کی ایک فضا قائم ہو گئی تھی اور پوری دنیا سے اہم تجارتی فورموں کا رخ پاکستان کی طرف ہونے لگا تھا۔ خاص کر چین کے ساتھ سی پیک معاہدہ، مستقبل میں اس خطے کو ترقی کے راستے میں دوڑانے کا ایک شان دار منصوبہ ہے۔ پاکستان دشمن قوتوں کو وطن عزیز کے مستقبل کا یہ استحکام نہیں بھاتا اور بلاشبہ اس کےلیے وہ ہر اس سازش کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کریں گی… جس سے وطن عزیز انتشاراور کمزوری کا شکار ہو… وطن عزیز میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے اسباب میں، دوسرے کئی عوامل اور امور کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، کئی لوگ پاکستان سے افغان مہاجرین کے انخلا کا ذکر کرتے ہیں، کچھ لوگ پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کا راستہ روکنے کےلیے پڑوسی ملک کا تازہ وار اسے قرار دیتے ہیں، بعض تجزیہ نگار اسے مذہبی منافرت اور کالعدم تنظیموں کی کارستانیوں کا شاخسانہ سمجھتے ہیں، سبب جو بھی ہو، بحیثیت ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے، ہم سب کی چند ذمہ داریاں بنتی ہیں، ہم میں سے ہر شخص اپنے دائرہ کار میں ان ذمہ داریوں کو اگر محسوس کرے گا تو دشمن کے عزائم خاک میں مل سکتے ہیں۔
1)…اس ملک کا امن، اس کی بقا ، اس کا استحکام اور اس کے مفادات کا تحفظ، اس ملک کے ہر باشندہ کی دینی، اخلاقی اور ملی ذمہ داری ہے۔ ایسی کوئی بھی کارروائی جس سے وطن عزیز کے امن و امان، اس کے استحکام اور اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہو، چاہے اس کا سبب سیاسی ہو ، معاشی ہویا مذہبی و مسلکی ہو ،اس کی مذمت کرنا، اس کے خلاف ڈٹ جانا اور ایسی کارروائی کرنے والوں کو ملک و ملت اور دین کا دشمن سمجھنا…یہ ہم سب پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے، ایسی ملک دشمن کارروائیوں کے اسباب اور کارندے داخلی ہوں یا خارجی…ان کے مقابلے میں ہم سب کا ایک ہونا، اس ملک کی بقاء کےلیے ضروری بھی ہے اور یہ اس دھرتی کا ہم سب پر حق بھی ہے، ہمیں اپنے کردار، اپنی سوچ اور اپنے عمل سے دشمن کو پیغام دینا چاہیے کہ اس سبز ہلالی پرچم تلے ہم سب ایک ہیں…ہم سب ایک ہیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی بھر پور مذمت کی ہے۔
2)…ہمارے دفاعی اور سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ایسے موقعوں پر اور بڑھ جاتی ہے، وہ دشمن کی چال، اس کے عزائم اور اس کی کمین گاہوں کا بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ ملک میں حالیہ دہشت گردی کی بھی بعض حساس ایجنسیوں نے اطلاع دی تھی لیکن اس کے باوجود سکیورٹی کے نظام کو مؤثر نہیں بنایا گیا جس سے دشمن کو اپنے مقصد میں آسانی کے ساتھ کامیابی ملی۔ بعض ذمہ دار ذرائع کی طرف سے میڈیا پر کہا گیا کہ جنوبی پنجاب سے دہشت گردی ہو رہی ہے… ہمارے خیال میں کسی جگہ کی تعیین کر کے اس طرح کے بیانات دینے سے دشمن کو اپنی کمین گاہ تبدیل کرنے میں سہولت مل جاتی ہے…دہشت گردی، ملک کے جس حصے سے بھی ہو رہی ہے، وہاں دشمن پر گرفت کر کے، اس کی کمین گاہ پر کنٹرول کرنا چاہیے۔ اگر کوئی علاقہ واقعہ ملک دشمن عناصر کی کمین گاہ ہے تو سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری یہ نہیں کہ بیان دے کر اس کی نشاندہی کریں بلکہ دشمن کو تباہ کرنےکےلیےبیان دیے بغیر، ان کے ٹھکانوں کو قبضے میںلے لینا، کامیاب اور بارآور حکمت عملی کہلاتی ہے۔
3)…سکیورٹی اداروں کی طرف سے ہونے والی کارروائیوں کی بنیاد ٹھوس، حقیقی اور سچائی پر مبنی معلومات پر ہونی چاہیے تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو…بعض اوقات یہ شکایت سامنے آتی ہے کہ ایسے موقع پر پولیس صرف شک یا پرانی فائلوں کی بنیاد پر پکڑ دھکڑ شروع کر کے خانہ پرُی کرتی ہے جس سے ایک طرف نا انصافی وجود میں آتی ہے اور دوسری طرف اصل دشمن تک رسائی نہیں ہو پاتی۔
4)… اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دینی مدارس ، دین اسلام کے قلعے اور امن کے گہوارے ہیں، یہاں سے خیر ہی خیر اور امن ہی امن کا پیغام عام ہو رہا ہے۔ مدارس کی پوری تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے، دہشت گردی کے اس طرح کے مواقع میں دین دشمن عناصر ، مدارس کے خلاف پروپیگنڈے پر اتر آتے ہیں اور اس کے تانے بانے مدارس سے جوڑتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے سکیورٹی اداروں میں سے اکثر کو حقیقت حال کا علم رہتا ہے لیکن پھر بھی میڈیا کے پروپیگنڈہ کا ایک اثر ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارےعوام ،ہماری قوم ، ہماری فوج ، ہماری پولیس اور ہمارے سکیورٹی اداروں اور سیاسی قوتوں کی نظر سے یہ حقیقت اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اسلام کا امن کا پیغام عام کرنے والے دینی مدارس، ان سے وابستہ علما، اس ملک کا سرمایہ اور اس قوم کا اثاثہ ہیں اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ بلاوجہ ان کی بے توقیری کرنے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ سے گریز کرنا چاہیے اور ملک و ملت کے اصل دشمنوں کے تعاقب میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہئیں۔ علمائے دین اور دینی مدارس کی حب الوطنی ، ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ترہے…2004ء میں ان علما ہی نے اس طرح کے خود کش حملوں کے حرام ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا… قتل نا حق اور مسلمان کے خون بہانے کی حرمت پر علما نے اخبارات اور رسائل میں مستقل اور مسلسل مضامین لکھے، منبر ومحراب سے آواز بلند کی اور مواعظ و خطبات ارشاد فرمائے…حالیہ دہشت گردی کے موقع پر وفاق المدارس کے مرکز کی طرف سے تمام مدارس ، علما اور خطبا سے دہشت گردی کے خاتمے اور دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی کےلیے دعائوں کی اپیل کی گئی اور الحمد للہ ملک بھر کے خطبا ،علما اور مدارس کے طلبہ نے اس کا اہتمام کیا…5)…ان تمام امور کے ساتھ ساتھ بحیثیت مسلمان، آزمائش اور ابتلا کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ، توبہ اور دعائوں کا اہتمام بھی ہماری ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ مادی اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی اسباب کو اختیار کرنا، ایک مسلمان کے عقیدے اور نقطئہ نظر کے اعتبار سے مکمل فلاح و کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ ہم سب انفرادی اور اجتماعی نافرمانیوں کا شکار ہیں اور من حیث القوم ضروری ہے کہ ہم اجتماعی توبہ کا بھی اہتمام کریں، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اپنی ملی اور قومی زندگی کو آزمائشوں سے نکالنے کے لیے اپنے رب کو راضی کریں۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔


.
تازہ ترین