• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اس تاثر کی تردید کہ امریکہ اور کچھ دوسرے مغربی ملک پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے خواہشمند ہیں ،بلاشبہ نہایت خوش آئند اور اطمینان بخش ہے اور اس سے سی پیک سے وابستہ خطے کے خوشگوار مستقبل کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات دور ہوں گے۔ یہ وضاحت انہوں نے گزشتہ روز برادرملک ترکی کے دورے کے اختتام پر انقرہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک سی پیک کے خلاف کوئی سازش نہیں کررہے ہیں لیکن خطے کی بعض طاقتیں اس منصوبے کو اچھا نہیں سمجھتیں ۔وزیر اعظم نے اقتصادی راہداری کی مخالف جن علاقائی طاقتوں کا ذکر کیا ہے ان میں بھارت کا سرفہرست ہونا پوری طرح ظاہر و باہر ہے۔بھارت کی اعلیٰ قیادت اس حوالے سے اپنے جذبات کا برملا اظہار کرتی رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی چینی قیادت سے بات چیت میں براہ راست اس منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہارکرچکے ہیں اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیچھے بھی اسی مقصد کے کارفرما ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ تاہم بھارتی قیادت مستقبل کے عالمی منظر نامے کا ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لے تو اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ پاکستان دشمنی کی روش پر اصرار اس کے لیے آنے والے زمانے میں کسی فائدے کا نہیں بلکہ سراسر گھاٹے کا سودا ثابت ہوگا۔ بھارتی قیادت کوسمجھنا چاہیے کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے بین الاقوامی تجارت کو جتنے بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہوگا اس سے بلاواسطہ یا بالواسطہ پوری دنیا مستفید ہوگی لہٰذا دنیا کے تقریباً سارے ہی ممالک اس میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بحر ہند کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پاک بحریہ کی حالیہ کثیر القومی مشقوں میں روس، چین ، امریکہ ، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، انڈونیشیا، ترکی اور سری لنکا سمیت چھتیس ملکوں نے بھرپور شرکت کی ۔ اقتصادی راہداری میں ایران اور ترکی ہی نہیں روس اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ملک بھی شمولیت کے لیے پیش قدمی کررہے ہیں۔ جہاں تک کابل کا تعلق ہے تو اپنی حالیہ پالیسیوں کے تحت بعض حوالوں سے نئی دہلی کے زیر اثر ہونے کے باوجود افغانستان پاک چین اقتصادی راہداری میں پوری طرح شامل ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے انقرہ میں صحافیوں کا بتایا کہ ہمارا مستقبل کا وژن خنجراب سے چین، کرغزستان اورقازقستان تک وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر مبنی ہے۔پشاور سے جلال آباد چار لین موٹر وے کا 70 فی صد کام مکمل ہوچکا ہے اور پشاور کابل موٹر وے کا فزیبلٹی ورک بھی جاری ہے لہٰذا کابل کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان افغانستان کا خیرخواہ ہے۔ بلاشبہ اقتصادی راہداری سے افغانستان کے لیے بھی پوری دنیا تک رسائی اور اقتصادی خوشحالی کے راستے کھل جائیں گے اس لیے بھارت کے زیر اثر اسے ایسی پالیسیاں نہیں اپنانی چاہئیں جوپاکستان میں عدم استحکام کا سبب بن کر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں کسی بھی طور رکاوٹ بنیں۔اب تک یہ گمان پایا جاتا تھا کہ امریکہ اور بعض دوسرے مغربی ملک سی پیک کے ذریعے چین کی گوادر کی بندرگاہ تک رسائی کو اپنے اقتصادی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں لہٰذا اس منصوبے کے خلاف بھارتی سازشوں کی درپردہ حمایت کررہے ہیں، لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی اس غیرمبہم وضاحت کے بعد کہ امریکہ سمیت کوئی مغربی ملک اقتصادی راہداری کا مخالف نہیں، بھارتی قیادت کو بھی اس حقیقت کو سمجھناچاہیے کہ اقتصادی راہداری سب کے مفاد میں ہے۔ پاکستان بھارت کو بھی اس میں شامل ہونے کی پیشکش کرچکا ہے۔ لہٰذا بھارتی قیادت کو اپنے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے اقتصادی راہداری کے خلاف سازشوں کے بجائے اس کا حصہ بننے پر غور کرنا چاہئے۔

.
تازہ ترین