• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادر عزیز مبشر زیدی نے اپنے سو لفظوں کی کہانی سے ایک دھوم مچا رکھی ہے۔ ان کی سو لفظوں کی کہانیاں کئی افسانہ نگاروں کی لمبی لمبی کہانیوں سے کہیں زیادہ دلپذیر ہوتی ہیں۔ اس طرح برادرم خالد حنیف ایک جملے میں اپنی خوشگوار حکمت بھری بات کہنے کے ماہر ہیں۔ حال ہی میں ان کے ’’ملفوظات‘‘ کے کلیات ’’اختصاریئے‘‘ کے نام سے سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک آپ کیلئے :
آتش فشاں جب لاوا اگلتا ہے تو اس کا پہلا شکار وہ خود ہوتا ہے۔
بوڑھا ایسی گائے ہے جسے ’’قصاب‘‘ سے بچنے کے لئے ’’دودھ‘‘ دینا ہی پڑتا ہے۔
بعض لوگوں کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ وہ منہ میں دوا کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔
بیکار لوگ اکٹھے ہو جائیں تو سوائے کام کے باقی کچھ نہیں بچتا۔
’’ڈرامہ باز‘‘ کتنا بھی ظلم کرے بس ایک ڈرامے کے بعد پھر سے مظلوم بن جاتا ہے۔
صورت و سیرت والی غریب لڑکی ایسا ’’کٹ پیس‘‘ ہے جسے تراش کے سستے میں ماپ کا سوٹ بنایا جا سکتا ہے۔
الزام تراشی کرنے والوں کی کھڑکی کے قریب سے بھی مت گزرو کہ تاک جھانک کا الزام تو کہیں گیا نہیں۔
کوئی کتنا بھی غیر اہم ہو پیدائش، شادی اور موت پر اہم ہو ہی جاتا ہے۔
تکمیل کی خواہش تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بنی رہتی ہے۔
قریب کی بارات ہمیشہ دیر سے آتی ہے۔
چاند کو گرہن لگ بھی جائے تو اس کا سفر رکتا نہیں ہے۔
چوکیدار کو ساتھ ملا لینے سے چوری جائز نہیں ہو سکتی۔
باسی گوشت سے زیادہ تازہ دال مزہ دیتی ہے۔
ہر شخص اپنے ’’دائرے‘‘ کا ’’بادشاہ‘‘ ہوتا ہے۔
ایک دوسرے کو بیکار سمجھنے والے بھی ہم خیال ہو جاتے ہیں۔
گھر ہو یا ملک، بیرونی مداخلت کے ہوتے امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اکثر افسران میٹنگ میں ایسے چلے جاتے ہیں جیسے مریض کوما میں۔
نوجوان شادی سے مسلسل انکار کرنے لگے یا بوڑھا ورزش کرنے لگے تو لوگ شک میں پڑ جاتے ہیں۔
اکثر رشتے شراب کی مانند ہو گئے ہیں جن کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۔
مقروض معروف اور مصروف لوگوں سے نہ ملنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں اور پھر لوگ ان سے ملنے کے لئے!
گھر میں ایک سے زیادہ بہو رانیاں، پاس پڑی بجلی کی وہ تاریں ہیں جن کے ٹکرانے سے کسی بھی وقت شعلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ماسوا کے مقابلے میں اللہ سے مانگنے والے بہت ہی کم رہ گئے ہیں۔ تو کیوں نہ اللہ کی ’’فراغت‘‘ سے فائدہ اٹھا کر اسی سے مانگا جائے۔
بیشتر باریش اپنی ریش کے بارے میں اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ دورانِ نماز بھی ہاتھ پھیر کر اس کی موجودگی کا اطمینان کرتے رہتے ہیں۔
کیا کبھی مرغی نے بھی دانہ چگنے کیلئے مرغے کو بلایا ہے۔
منتظم کے لئے بہتر ہے کہ وہ صرف اتنا اچھا ہو کہ لوگوں کی اکثریت اسے برا نہ کہہ سکے۔
محاورہ:جو لوہار کو سنار سے برتر بنا دیتا ہے۔
مونچھوں کو اتنا مت سنوارو کہ وہ سرے سے صاف ہی ہو جائیں۔
ہر سانپ نما چیز نہ تو سانپ ہوتی ہے اور نہ ہر سانپ زہریلا ہوتا ہے۔
لمبی بات اثر کھو دیتی ہے۔
کیا سبھی مقروض ہو گئے ہیں کہ ملاقاتی کا نام پوچھے بغیر کوئی باہر ہی نہیں آتا۔
لمبے قد کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ غلطی کا سبب نہیں پوچھتے۔
بے عزتی جس کا کچھ نہ بگاڑ سکے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
مچھلیاں پکڑنے کے لئے پانی کی تہہ تک پہنچنا ضروری نہیں۔
بیشک دو گدھے مل کر ایک گھوڑے کو پریشان کر سکتے ہیں۔
’’زبان کا بُرا دل کا برا نہیں ہوتا‘‘ کی بدترین تشریح ’’جو بھونکتے ہیں، وہ کاٹتے نہیں!‘‘
یہ ضروری نہیں کہ ہوا باز سائیکل چلانے کا بھی ماہر ہو۔
خوشی اس بارش کی مانند ہے جس سے پہلے بھی حبس ہوتا ہے اور بعد میں بھی!
دوسرے گھر کی تلاشی لینے والا اپنے گھر کی چابی کبھی نہیں دیتا۔
کبھی کبھار کچھ بھی کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
ہونٹ چبانے کے لئے بس ہوتے ہیں۔
مہذب بننے کے شوق میں لوگ مخنس بن کر رہ جاتے ہیں۔
کسی کے تجربے سے فائدہ اٹھانا اس کے انجام سے اپنا آغاز کرنا ہے۔
بندے تو سبھی اچھے ہوتے ہیں بس یہ کہ ہماری طبیعت کے سانچے میں کون فٹ ہوتا ہے۔
آدمی کے خیالات نہیں بدلت، پس اس کے معمولات نہیں بدلتے اور آدمی کے معمولات نہیں پس اس کے حالات نہیں بدلتے۔
عزت اسے دو جو ہضم کر سکے۔
جوانی میں دوسروں سے الجھنے والا بڑھاپے میں اپنے آپ سے الجھنے لگتا ہے۔
موازنے کا مریض کبھی سکون نہیں پا سکتا۔
خواب اور حقیقت کے درمیان آدمی کی حیثیت پٹرولیم کی سی رہتی ہے۔
کاش عام زندگی میں ہم اتنے با اخلاق ہو جائیں جتنے ٹیلی فون پر۔
پہلا آدمی صرف اسی صورت میں اچھا لگ سکتا ہے اگر دوسرا اس سے بھی زیادہ برا نکل آئے۔
عورت کا المیہ یہ ہے کہ وہ ندی ہوتے ہوئے پیاسی رہتی ہے۔
عورت کو پیٹ کا ہلکا پن اس قدر پسند ہے کہ اس کے بھاری ہونے کا الزام بھی فوراً پائوں کے سر تھوپ دیتی ہے۔
بیوقوف مرد سمجھتا ہے کہ اس کی ماں یا بیوی میں سے ایک ہی سچ بولتی ہے حالانکہ دونوں عورتیں ہیں۔
اور اب آخر میں بہت خوبصورت شاعر قمر ریاض کی ایک بہت ہی خوبصورت غزل:۔
تم پھول ہو اور گریہ و زاری کی طرح ہم
درگاہ محبت میں بھکاری کی طرح ہم
جب وصل کے بارے میں کوئی پوچھے تو کہنا
نشے کی طرح تم ہو خماری کی طرح ہم
کھڑکی سے ادھر بیٹھے ہوئے شخص سے کہئے
ہیں کب سے کھڑے آخری باری کی طرح ہم
تو اپنے لئے دل کا مکیں تخت نشیں ہے
اور تیرے لئے وقت گزاری کی طرح ہم
ہونٹوں پہ سجاتے رہے بے نام ہنسی کو
اک گائوں کے میلے میں مداری کی طرح ہم
بھٹکے ہیں کسی دوسری منزل پہ اتر کر
گاڑی سے کسی بھولی سواری کی طرح ہم
لے تیرے لئے آخری بازی بھی لگا دی
اور کھیل بھی ہارے ہیں جواری کی طرح ہم
ہم یار قمر اس لئے مشہور ہوئے ہیں
یاروں کی طرح یار تھے یاری کی طرح ہم


.
تازہ ترین