• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطنِ عزیز میں ایک شکایت زبان زد عام ہے کہ یہاں مقاماتِ آہ و فغاں جتنے زیادہ ہیں تفریحات اور خوشیوں کے مواقع اتنے ہی کم ہیں اسی لیے جب کبھی پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد جیسا فیصلہ ہوتا ہے تو ہم ایسے فیصلوں کی حمایت اپنا قومی فریضہ خیال کرتے ہیں سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کے مزار پر ہونے والے خود کش حملے نے فضا سوگوار بنا دی۔ پھر چار سدہ میں بھی یہی خونی کھیل کھیلا گیا یوں چاروں صوبوں میں دہشت گردوں نے سوز، خوف، دہشت اور وحشت کی فضا طاری کر دی۔ انسانی خوشیوں کے یہ قاتل پاکستانی عوام کو ہنستا کھیلتا دیکھنا قطعاََ پسند نہیں کرتے۔
بھلا ہو ہمارے بلند حوصلہ اور پُر عزم وزیراعظم کا جنہوں نے قوم کو ایک نیا اعتماد دیتے ہوئے نہ صرف اپنے تعمیرو ترقی کے سفر کو جاری و سار ی رکھا بلکہ تمام تر منفی پروپیگنڈہ کے بالمقابل سچائی، حقائق شناسی، محبت اور انسان نوازی کے پیغام کو بلند کیا سی پیک کے حوالے سے ہمارے میڈیا میں ایک غیر ذمہ دارانہ تاثر پھیلایا جا رہا تھا کہ جیسے امریکا اور مغربی ممالک اس کے مخالف ہیں حالانکہ عالمی سیاست کی رموز سے آگاہ کوئی بھی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ آج کی دنیا ماضی کی بہت سی تنگناؤں سے کہیں آگے نکل چکی ہے مگر جو لوگ اپنے گاؤں یا گلی محلے کی سیاست سے آگے جھانکنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں وہی ایسے منفی پروپیگنڈوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔
ہمیں خوشی ہے کہ انقرہ سے واپسی کا راستہ لینے سے پہلے وزیراعظم نے میڈیا کے سامنے کھل کر یہ واضح کیا کہ امریکا اور مغربی ممالک سی پیک منصوبے کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے خلاف کسی نوع کی کوئی سازش کی جارہی ہے بلکہ کچھ مغربی طاقتوں نے اقتصادی راہداری کے اس منصوبے کا حصہ بننے میں دلچسپی ظاہر کی ہے وزیراعظم نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ترکی وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر اقتصادی راہ داری منصوبے کو تقویت دے سکتا ہے ہمارا وژن خنجراب سے چین کر غزستان اور قازقستان تک بلکہ سینٹرل ایشیا کے تمام ممالک تک اقتصادی روابط قائم کرنے پر مرکوز ہے۔اسلام آباد میں منعقدہ اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)کی حالیہ سمٹ کانفرنس کی افادیت کو اس پسِ منظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے جس کے ذریعے سینٹرل ایشیاکے جنوب سے لے کر یورپ تک راہداریاں بن رہی ہیں اقتصادی ترقی کے لیے ای سی او وژن 2025 کی منظوری دی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ECO ممالک سلک روڈ ورثہ کے کسٹوڈین ہیں۔ سمٹ کا موضوع ہی ’’علاقائی ترقی کے لیے رابطوں کا فروغ ہے‘‘۔ وزیراعظم نواز شریف کا یہ اظہارِ خیال قابل فہم ہونا چاہیے کہ ECOکا وژن2025ہمارے آگے بڑھنے کے لیے حقیقت پسندانہ اور ٹھوس تنظیمی اہداف کی شکل میں بنیاد فراہم کرتا ہے۔ تجارتی روابط میں اضافہ اور اقتصادی تعاون میں فروغ ہمارے خطے کو ترقی، خوشحالی اور امن کا مرکز بنادے گا۔
پچھلے برس سارک سمٹ کی ناکامی افسوسناک تھی وجوہ جو بھی تھیں اقتصادی نقصان خطے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کا ہوا۔ اب ECO سمٹ میں افغانستان کے اعلیٰ سطحی و فد کی عدم شرکت بھی کوئی اچھی مثال نہیں ہے پاکستان اور ECO کے دیگر ممالک کے درمیان افغانستان کی جغرافیائی اہمیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی حالانکہ وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم خطے کی ترقی کے لیے بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں ہم ان کے خیرخواہ ہیں بد خواہ نہیں پشاور سے جلال آباد تک چار لین کی موٹروے کا 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اسی طرح پشاور سے کابل تک موٹروے فزیبلٹی ورک جاری ہے ان انفراسٹرکچر پروجیکٹس کی فنڈنگ کھلے بندوں کی جارہی ہے خطے کے لیے جن کی افادیت مسلمہ ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں نہ صرف یہ کہ جنوبی ایشیاء کی ترقی و خوشحالی کے لیے سارک رکن ممالک وقت کی آواز کو سمجھتے ہوئے باہمی سیاسی اختلافات کے باوجود دستِ تعاون بڑھائیں گے بلکہ ECOممالک کے ساتھ زمینی روابط کا حصہ بنتے ہوئے خطے کی اقتصادی ترقی میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوں گے۔ افغان حکومت نے اگرچہ اپنا اعلیٰ سطحی و فد بھیجنے میں گرمجوشی نہیں دکھائی اس کی فوری وجوہ سے بھی انکار نہیں لیکن پاکستان میں اپنے سفارتی مشن کو یہ ہدایت کہ وہ سفارتی وفد کے ذریعے شرکت کرے بہت زیادہ مایوس کن نہیں ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے شکایات صرف افغانستان اور بھارت کو نہیں ہیں پاکستان کوبھی ہیں یہ عفریت پورے خطے کا مشترکہ مسئلہ ہے جسے کُٹی کر کے نہیں باہمی تعاون سے ہی حل کیا جاسکتا ہے امید ہے کہ آنے والے دنوں یا مہینوں میں تینوں ممالک اس حوالے سے سفارتی سر گرمیوں کو بڑھاتے ہوئے کسی متفق علیہ نتیجہ پر پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لیں گے جس نوع کی فہرستیں ہندوستان ہمیں بھجواتا ہے ان کا حل قطع تعلقی یا جنگی فضا میں نہیں نکل سکتا۔ طورخم اور واہگہ بارڈر کھلنے چاہئیں اقتصادی، ثقافتی او ر سیاسی روابط بحال ہونے چاہئیں۔ اسی سے ہمارا سفر پیچھے کی بجائے آگے کی طرف جا سکتا ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے یہ خوش کن لمحہ ہے کہ عرصہ دراز کے بعد اسلام آباد میں ای سی او اقتصادی بلاک کے دس میں سے 9سربراہان مملکت و حکومت تشریف لائے ہیں اس میں جہاں دو طرفہ تعلقات اور اجتماعی مفادات کے منصوبے تشکیل پارہے ہیں وہیں دہشت گردی کے خاتمے کی خاطر مشترکہ کاوشوں کا عہدبھی کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں پی ایس ایل فائنل منعقد ہونے جا رہا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے مشورے اور ہدایت پر یہ بڑا فیصلہ کیا ہے اس سے مایوسی پھیلانے والوں کو ضرور دھچکا لگا ہے۔ سابق کھلاڑی کا یہ بیان انتہائی افسوسناک ہے کہ لاہور میں فائنل کرانا پاگل پن ہے حالانکہ یہی صاحب تھوڑا عرصہ قبل اس کی حمایت میں بیان بازی کرتے پائے گئے تھے کیونکہ تب انہیں یقین نہیں تھا کہ حکومت کوئی ایسا بولڈ قدم اٹھائے گی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دہشت کے جبر سے حکومت جس طرح بسنت منانے کی خواہش سے دستبردار ہو گئی تھی اسی طرح فائنل بھی نہیں کروا سکے گی۔ ہماری کرکٹ کے سابق کھلاڑی کو اگر سیاست کا زیادہ تجربہ وغیرہ نہیں ہے تو بھی کسی لمحے مایوسی پھیلانے کی بجائے صبر اور خاموشی سے کام لے لیا کریں تو اس سے نہ صرف ان کی نیک نامی ہو گی بلکہ ان کی پارٹی کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ہم خطے کے تمام اندرونی و بیرونی یاسیت پسند حضرات کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں میں خوشیاں نہیں بانٹ سکتے تو کم ازکم دکھ اور مایوسیاں بانٹنے سے احتراز کریں۔ الحمداللہ پاکستانی قوم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے انتہا پسندانہ سوچ کو شکست دے گی اور تمام انسانی خوشیاںاس قوم کا مقدر ٹھہریں گی۔

.
تازہ ترین