• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن رہا ہے جس کی مذمت تو کی جاتی ہے لیکن اس کے سدباب اور خاتمے کیلئے اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ میں چلنے والے پاناما کیس میں بہت سے پاکستانیوں کے نام آئے ہیں اور احتساب کا عمل جو اوپر سے شروع ہوا ہے، حوصلہ افزا ہے مگر پاکستان سے لوٹی گئی دولت کے انبار سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے ہیں جس سے ان مغربی ممالک کی معیشتیں تو دنیا کی بڑی معیشتیں بن گئی ہیں لیکن جن ممالک سے دولت لوٹی گئی، وہ ملک غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر مجھ سمیت ہر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا وہ حکمراں جنہوں نے ملکی دولت لوٹی اور وہ ادارے جو پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کیلئے قائم کئے گئے ہیں، کبھی اس دولت کو وطن واپس لاسکیں گے؟
پاکستان میں امیر اور طاقتور شخصیت کیلئے قانون سے کھیلنا اور قانون کے شکنجے میں آنے کے باوجود بھی بچ نکلنا نہایت آسان ہے جس کی حالیہ مثال بلوچستان کے ایک سیکریٹری کے گھر سے ’’قارون کا خزانہ‘‘ برآمد ہونا ہے جس کا شمار کرنا اتنا مشکل تھا کہ نوٹ گننے والی مشینیں تک نوٹ گنتے گنتے گرم ہوگئیں۔ بعد ازاں اس کیس میں پلی بارگین تصفیہ نے مجھ سمیت ہر شخص کو حیران کردیا۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن بھی صرف کرپشن کے خاتمے کی باتیں کرنے تک محدود ہیں اور اس سلسلے میں اب تک کوئی عملی کارروائی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ میں نے کرپشن پر کئی کالم لکھے ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ سوئس بینکس سیکرٹ کوڈ اکائونٹ کھولنے کیلئے مشہور ہیں جس میں اکائونٹ ہولڈرز کا نام خفیہ رکھا جاتا ہے اور یہ اکائونٹ ایک پاس ورڈ کے ذریعے آپریٹ ہوتا ہے۔ ایسے سوئس اکائونٹس میں ڈپازٹس پر منافع دینے کے بجائے کھاتے داروں سے سروس چارجز وصول کرتے ہیں۔ 300 سال پرانے سوئس قانون کے تحت سوئس بینکس رقوم کے ذرائع معلوم کئے بغیر اکائونٹ کھول دیتے تھے اور بینکنگ رازداری کے تحت اپنے اکائونٹ ہولڈرز کی تفصیلات بتانے کے پابند نہیں تھے لیکن سوئس حکومت ٹیکس چوری کو بڑا جرم تصور کرتی ہے اور اس کے ٹھوس ثبوت فراہم کئے جانے کی صورت میں اکائونٹ کی تفصیلات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں 2016ء کے وسط میں حکومت پاکستان اور سوئس ٹیکس اتھارٹیز نے بینک کھاتوں کی معلومات کے تبادلے کیلئے اہم مذاکرات کئے تھے جس میں سوئس حکومت نے معاہدے کے عوض ٹیکسوں میں 5 فیصد کمی اور سوئٹزرلینڈ کو انتہائی پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن اب سوئٹزرلینڈ بغیر کسی شرائط معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے آمادہ ہوگیا ہے جس کیلئے اعلیٰ سطح کا وفد 21 مارچ کو سوئٹزرلینڈ جائے گا اور معاہدے کے بعد پاکستان، سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں موجود پاکستان کی لوٹی گئی دولت سے متعلق معلومات حاصل کرسکے گا۔ کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلسٹ نامی امریکی صحافتی گروپ نے سوئٹزرلینڈ کے بینک HSBC کا ڈیٹا لیک کیا تھا جس میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان بینک میں اپنی دولت رکھنے والا 48 واں بڑا ملک ہے۔ مختلف ذرائع کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کے 80سے 200 ارب ڈالر موجود ہیں لیکن اس دولت کو پاکستان واپس لانے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔حکومت پاکستان نے متحدہ عرب امارات سے بھی 1995ء میں ڈبل ٹیکسیشن ٹریٹی کی تھی جس کے تحت پاکستانیوں کی دبئی میں اربوں روپے کی پراپرٹیوں کی تفصیلات مانگی ہیں اور اگست 2016ء کے OECD معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات حاصل ہوجائیں گی۔ وزیراعظم کے مشیر ہارون اختر نے فیڈریشن کے حالیہ دورے میں بتایا کہ قومی اسمبلی میں بے نامی ٹرانزیکشن کو روکنے کیلئے قانون پاس ہوگیا ہے جس کے تحت وکالت نامے کے ذریعے پراپرٹی کو بے نامی رکھنا اب مشکل ہوجائے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان نے OECD ملٹی لیٹرل کنونشن آن ٹیکس میٹرز کی رکنیت حاصل کرلی ہے جس کے تحت دنیا کے 104 ممالک سے ٹیکس معلومات کا تبادلہ ممکن ہوسکے گا۔ دنیا میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کے سلسلے میں نئے سخت قوانین بنائے جارہے ہیں اور لوگوں کیلئے اب اپنی غیر ظاہر شدہ دولت بیرونی بینکوں میں رکھنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ میں نے 20 فروری 2017ء کے کالم میں بتایا تھا کہ حکومت، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ایک نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے مشاورت کررہی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ماہ قبل بزنس کمیونٹی نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اسلام آباد میں اپنی ملاقات میں ملک و بیرون ملک اثاثوں کیلئے نئی ایمنسٹی اسکیم کی بھرپور حمایت کی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزنس کمیونٹی اپنے اثاثوں کو قانونی بنانا چاہتی ہے جبکہ حال ہی میں وزیراعظم نے اپنے دورہ کراچی کے موقع پر گورنر ہائوس میں بزنس کمیونٹی کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کے دوران ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی ہے جو بہت جلد اپنی سفارشات وزیراعظم کو پیش کرے گی۔
قیام پاکستان کے 70 سالوں کے دوران مختلف حکومتوں کی غیر تسلسل پالیسیوں سے بزنس مینوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں نجی اداروں کو نجکاری کے ذریعے سرکاری تحویل میں لینا، نواز شریف دور حکومت میں فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرنا، کراچی میں امن و امان کی ناقص ترین صورتحال اور انرجی بحران کے باعث جان و مال اور سرمائے کے تحفظ کیلئے صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کا اپنی صنعتیں اور سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل کرنا وہ حقیقی عوامل تھے جو بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاری کی منتقلی کا سبب بنے۔ پاناما لیکس، آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث اب ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان اثاثوں کے مالکان انہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بہتر بناکر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے تاکہ وہ بیرون ملک کمائی گئی اپنی دولت دوبارہ وطن واپس لاسکیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سوئس بینکوں میں منتقل کی گئی رقوم پاکستان کے اقتصادی نظام میں کرپشن، بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ اور کاروباری و تجارتی معاملات میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی ’’ڈیل‘‘ کا شاخسانہ ہے جس نے ملکی اقتصادی نظام کے استحکام اور انتظامی و ریاستی اداروں میں موثر چیک اینڈ بیلنس اور مالیاتی شفافیت کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیئے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ بذات خود ایک کلچر بن گیا۔جن سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور بیوروکریٹس نے اپنی دولت سوئس بینکوں میں چھپا کر رکھی ہے۔ اس بات کی دلیل ہے کہ ان خود غرض اعلیٰ شخصیات کا قومی وقار، مروت، حیا، قوم پرستانہ جذبات اور ملکی ترقی و معاشی خوشحالی سے کوئی غرض نہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کو اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد سمیت بااثر خاندانوں اور کالے دھن کی انڈر گرائونڈ معیشت کے بڑے کھلاڑیوں کی سوئٹزرلینڈ کی آف شور بینک برانچوںمیں اُن 200 ارب ڈالر کی واپسی کیلئے حکمرانوں کو مصلحت سے کام نہیں لینا چاہئے۔

.
تازہ ترین