• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک بحریہ پاکستان کے ساحلوں کے دفاع اور بلوچستان اور سندھ کے عوام کیلئے جو خدمات سرانجام دے رہی ہے اُس سے آگاہی کیلئے صحافیوں کو گوادر، اورماڑہ اور شاہ بندر کا دورہ کرایا گیا۔ یہ ایک بہت ہی معلوماتی مگر تھکا دینے والا کام تھا۔14 مارچ 2017ء گوادر کی جانب رواں دواں تھے، جہاں اتفاقاً ہوائی جہاز میں ایک بلوچ کموڈور سے ملاقات کا موقع ملا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ انہوں نے یہ نوید سنائی کہ مخالفین کی تعدا بہت حد تک گھٹ گئی ہے، گوادر پہنچ کر ہم نے ایک اسکول کا دورہ کیا جہاں400 طالبعلم زیرتعلیم ہیں جنکی اکثریت بلوچ اور ماہی گیر بچوں پر مشتمل ہے جو خوشی کے جذبات سے سرشار تھے، اعتماد اور اُمید سے بھرپور مستقبل کا خواب اُن کے دل میں موجزن نظر آرہا تھا، اُنکو تعلیم بالکل مفت دی جارہی ہے، اساتذہ کرام میں بڑی تعداد بلوچ خواتین اور مردوں کی ہے، وہ بچے ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کہ تمنا میری‘‘ گا رہے تھے، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے کلاسز گونج رہی تھیں، جوڈوکراٹے اور ورزش کا بھی مظاہرہ کیا گیا جو ماحول کو کو گرما رہا تھا، گوادر بندرگاہ میں اس وقت تین برتھیں عملاً کام کررہی ہیں جبکہ 85 برتھیں تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے، 16 مارچ کو جناب وزیراعظم پاکستان نے میٹھے پانی، نکاسی آب اور ترقی کے مختلف منصوبوںکیلئے 7 ارب روپے دینے کا اعلان کیا، اِسکے علاوہ یہ اعلان بھی کیا کہ ترقی کے تمام راستے بلوچستان سے نکلیں گے، پاکستان ایشیا کا اور بلوچستان پاکستان کا ٹائیگر بنے گا۔ گوادر میں ہم نے Hammer Head اسٹرٹیجک پہاڑ کا دورہ کیا، وہاں اطمینان بخش بریفنگ تھی کہ پاکستان ہر طرح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہرخطرے سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے، ہتھوڑا کا سر ایک قدرتی پہاڑ ہے جو ہتھوڑےکے سر کی طرح ہے، وہاں ہمارے وہ دفاعی آلات لگے ہوئے ہیں جن سے ہم دور تک دیکھ سکتے تھے مگر جو اصل ہتھیار، آلات اور نظام ہیں وہ بہرحال خفیہ رکھے گئے ہوں گے۔ پاکستان نے گوادر اور بحری راستوں کی حفاظت کیلئے ایک ٹاسک فورس TF-88 کے نام سے تشکیل دی، یہ ایک پُروقار تقریب تھی جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات اسکے مہمان خصوصی تھے جنہوں نے یہ اتھارٹی کی ذمہ داری ٹاسک فورس کے سربراہ کو سونپی۔ اِس تاریخی موقع کو دیکھنے کیلئے ہم بھی وہاں موجود تھے۔ یہ ٹاسک فورس پاکستان کے مچھیروں کی حفاظت کرتی ہے، یہی نہیں گوادر جو اس وقت پاکستان کی ترقی کا محور بنا ہوا ہے اور جس کو گیم چینجر کہا جاتا ہے اور اسکے بعد یہ کہا جانے لگا ہے کہ برطانیہ و مغرب کے Great Game کا خاتمہ ہوگیا ہے تاہم ایک نئے گریٹ گیم کی ابتدا ہوچکی ہے۔ یہ گہرے سمندر کی عظیم بندرگاہ ہے جو دُنیا میں خال خال پائی جاتی ہے، یہ یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ گوادر میں بریفنگ پی این ایس اکرم میں کمانڈر شاہد احمد نے دی جو اس لئے اطمینان بخش تھی کہ بحری راستوں کو محفوظ بنانے کیلئے کی جانے والی تمام کاوشوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔15 مارچ کو اورماڑہ کا سفر کیا جو پاکستان کا بحری اڈہ ہے اور وہ کراچی، گوادر اور پوری ساحلی پٹی پر کہیں بھی جارحیت کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اورماڑہ کراچی سے 385 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہاں ہمیں ایک اسپتال لے جایا گیا جوکہ 25 بستروں پر مشتمل ہے اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہے، یہ اسپتال اورماڑہ میں نہ صرف طبی سہولتیں فراہم کررہا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی مہیا کررہا ہے، ہمیں ایکسرے روم، چائلڈ لیبر روم، اِنکوبیٹر کی سہولتوں کو دکھائی گئیں۔ زیادہ تر اسٹاف اورماڑہ یا بلوچی افراد پر مشتمل تھا، خوشی ہوئی کہ اپنے بلوچی بھائیوں کو ہم جس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں اُنکے قدم اس طرف بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اے ٹی آر جہاز کے سفر کے دوران ہماری ملاقات بحری ساحلوں کی حفاظتی فورس کے ذمہ دار وائس ایڈمرل وسیم اکرم سے ہوئی، اُن کا کہنا تھا کہ گوادر ہمارے لئے قدرت کا عظیم تحفہ ہے جسکا پانی اتنا گہرا ہے کہ بڑے سے بڑا جہاز اسکے ساحل پر لنگرانداز ہوسکتا ہے۔ سارے پاکستانی ساحلی پٹی کی حفاظت کی ذمہ داری اُن کی ہے وہ بحریہ کی سرگرمیوں اور روزافزوں بڑھتی صلاحیتوں سے خاصے مطمئن تھے۔ اورماڑہ میں ہم نے جس اسکول کا دورہ کیا اسکے بچوں نے جو ٹیبلو پیش کیا وہ اگرچہ کم وقت کا تھا مگر تمام مسائل، اُس کے حل اور پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید سناتا تھا، اسکے بعد ہم کراچی کے کئی صحافیوں کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑاکیڈٹ کالج دیکھنے گئے، جہاں باقاعدہ طور بچوں کو فوجی تربیت دی گئی تھی، ان میں سے زیادہ تر بچے بلوچ تھے اور جس طرح انہوں نے فوجی پریڈ کا مظاہرہ کیا وہ دلوں کو گرما دینے والا تھا۔ وہاں مجھ سے رہا نہ گیا اور خلوص، محبت، حُب الوطنی اور جذبات سے سرشار ہو کر اُن کو مبارکباد دی۔ مجھے ان سے بہت اُمیدیں وابستہ ہیں میں انہیں پاکستان کا روشن مستقبل قرار دیتا ہوں۔ پھر یہاں بھی ہتھوڑے کا سر کا دورہ کیا جو پہاڑ کی کافی اونچائی پر تھا جہاں پر مربوط ریڈار سسٹم لگا ہوا تھا جو اونچی اور نیچی پروازوں یا غیرشناخت، دہشتگردی یا اسمگلنگ کے سدباب کیلئے کام آتا ہے۔ اس جگہ پر نہ صرف ریڈار سسٹم ہے بلکہ یہ انتہائی خوشگوار جگہ ہے، پکنک کا مقام ہے، پھر ہم زمینی راستہ شاہ بندر پہنچے وہاں ہم نے ہوور 8100 کی سواری کی جو زمین سے ڈیڑھ فٹ کی بلندی پر چلتا ہے اور پانی میں اتر جاتا ہے اور پانی سے زمین پر آجاتا ہے، یہ سرکریک کا علاقہ ہے جو معدنی دولت سے مالا مال ہے، مچھلیوں، خصوصاً پاپلیٹ اور دیگر مچھلیوں کی بہتات ہے، یہاں سے ہی پاکستان اور بھارت کے مچھیرے سمندری حدود کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے گرفتار ہوجاتے ہیں، اگرچہ پاکستان کے میرین فورس کے کمانڈر نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ماہی گیروں کی کافی تربیت کی ہے مگر جب لہریں آتی ہیں تو رُخ اور زمین کی ہیت یا نشانیاں مٹا دیتی ہیں جس کی وجہ سے مچھیرے غلطی کرتے ہیں، عوام سے پتا کرنے پر معلوم ہواکہ اگرچہ اس طرف بھارت کی زیادہ اشتعال انگیزی نہیں ہوتی اور اگر کبھی انہوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اُن کو سخت جواب دیا گیا تاہم یہ ایک نازک مقام ہے، اس کی اچھی خاصی دیکھ بھال کی جارہی ہے مگر مجھ جیسے حساس ذہن نے محسوس کیا کہ یہ ایک جگہ ہے کہ جہاں کچھ زیادہ آلات اور ہتھیار ایسے ہونا چاہئیں جو دشمن کے علم میں نہ ہوں مگر وقتِ ضرورت کام آئیں۔ بہرحال پاک بحریہ کے جنوبی تعلقات عامہ کا محکمہ اور مرکزی تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کی کاوشوں سے ہمیں پاکستان کی بحری سرحدوں میں سے کچھ کے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا اور اطمینانِ قلب ہوا کہ پاکستان کی بحریہ بھرپور صلاحیتوں کی مالک ہے، اگرچہ اس کو ابھی نیلگوں بحریہ بننا ہے اوریہ الفاظ یاد رکھنا چاہئے کہ جس کسی کو زمین پر حکمرانی کرنی ہے اس کو سمندروں پر حکمرانی کرنا چاہئے۔ اب اگر اس کو اس طرح تبدیل کردیا جائے تو بہترہے کہ جس کسی کو اپنے ملک کی حفاظت کرنا ہے اُس کے لئے بحری راستوں کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔

.
تازہ ترین