• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان سے دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے جس میں 2اہلکار شہید اور 4 زخمی ہوئے ہیں جوابی کارروائی میں 8دہشت گرد بھی مارے گئے ہیں حملے کی ذمہ داری حسبِ سابق جماعت الاحرار نے قبول کی ہے ۔ کچھ عرصے سے پاک سر زمین پر اس نوع کی کارروائیاں معمول بنی ہوئی ہیں اگرچہ پاکستان کی طرف سے بھی ان دہشت گردوں کی کمین گاہوں پر میزائل پھینکے گئے ہیں ہم نے طور خم اور چمن بارڈر بھی بند کر رکھے ہیں اب پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں لیکن یہ سب ہماری نظر میں مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایک دوسرے پر الزامات کی بھڑاس نکالنے کی بجائے ہر دو برادر ممالک ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دہشت گردی جس طرح پاکستان کے لئے ناسور ہے اسی طرح ہمارے افغان بھائیوں کے لئے بھی یہ زندگی موت کا مسئلہ بنی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام مہذب اقوام پاکستان اور افغانستان دونوں کی حکومتوں پر یہ زور دیتی رہی ہیں کہ وہ مل بیٹھ کر اس مسلے کا حل نکالیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں اور باہمی تعاون سے اس کا خاتمہ کریں۔ وزیراعظم نواز شریف اپنے مشترکہ دوست ممالک پر بھی اس حوالے سے رول ادا کرنے کے لئے زور دیتے چلے آ رہے ہیں۔
الحمدللہ اب حال ہی میں لندن میں برطانوی حکومت کی میزبانی میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی نمائندوں میں جو مذاکرات ہوئے ہیں ان سے مسئلے کے حل کی امید بند ھی ہے ۔ برطانوی قومی سلامتی کے مشیر سر مارک لائل کی رہنمائی میں پاکستان کے مشیر خارجہ سر تاج عزیز اور افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حینف اتمران مذاکرات میں شریک ہوئے ہیں ۔ سرمارک لائل 2003 سے 2006 تک پاکستان میں بطور برطانوی ہائی کمشنر خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور اس پس منظر میں مسائل کی نوعیت کو بخوبی سمجھتے ہیں لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور پاکستان میں افغان سفیر جو افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے پاکستان میں خصوصی نمائندے بھی ہیں نے بھی ان مذاکرات میں معاونت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مشیر خارجہ سر تاج عزیز نے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے افغان سرزمین استعمال کئے جانے اور انہیں اپنی سر زمین پر تحفظ فراہم کرنے پر حکومتِ پاکستان کی تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے موقف کے حق میں بعض شواہد بھی پیش کیے ہیں۔
مشیر خارجہ سر تاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے لئے قربانیاں دی ہیں لیکن ہمارے ملک میں حالیہ دنوں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہا۔ ہم ایک مضبوط اور مستحکم افغانستان کو خطے میں امن کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں اور افغان بھائیوں سے بھی اس کی توقع رکھتے ہیں دوسری طرف سے بھی ظاہر ہے اسی نوعیت کی شکایات یا شکوے پیش کیے گئے اور یہ کہا گیا کہ ہماری شکایات کی نوعیت بھی مختلف نہیں ہے جبکہ میزبانی کے فرائض ادا کرنے والے برطانوی قومی سلامتی کے مشیر نے دونوں ممالک سے کہا کہ ان کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے انہیں آپس میں تعاون کرنا چاہیے انہوں نے دونوں ممالک پر سیکورٹی اور دہشت گردی کے مشترکہ چیلنجزکو شکست دینے کے لئے کشیدگی ختم کرنے کی تلقین کی ۔ ہمارے دفترِ خارجہ کے مطابق برطانیہ ، پاکستان اور افغانستان تینوں ملکوں کے اعلیٰ حکام نے افغانستان کے عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں سے متعلق اسلام آباد کے خدشات پر گفتگو کی ہے افغان سفیر ڈاکٹر عمر خیلوال نے کہا ہے کہ لندن میں ہونے والے مذاکرات مثبت اور تعمیری رہے ہیں پاکستان اور افغانستان کا دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے اس سے حالیہ کشیدگی جلد کم ہو جائے گی اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ پاک افغان سرحد کی بندش بھی جلد ختم ہو جائے ۔
پاک افغان تعلقات کی اچھی یا بری ایک طویل تاریخ ہے پارٹیشن سے قبل یونائٹیڈ انڈیا پر بیشتر حملے اسی طرف سے ہوتے رہے ہیں برٹش انڈیا کو بھی ان حوالوں سے چیلنجز در پیش رہے یہی وجہ ہے مفکر پاکستان علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں خصوصی طور پر اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں جو علیحدہ مسلم مملکت قائم ہو گی وہ ایک لحاظ سے ہندوستان کی محافظ ریاست ہو گی کیونکہ وہ ہندوستان پر ہونے والے حملوں کو وہیں روک لے گی یہ الگ بات ہے کہ آج ہمیں اس حوالے سے خود بھارت پر کئی اعتراضات ہیں۔ بہرحال 27دسمبر 1979ء کو افغانستان میں سوویت مداخلت کی سب سے زیادہ قیمت پاکستان کو چکانی پڑی ہے ۔ اگرچہ اس حوالے سے کئی بے اعتدالیاں خود ہماری طرف سے بھی روا رکھی گئیں ہماری اس دو رکی خارجہ پالیسی کے تنقیدی جائزے لئے جاتے رہے ہیں اور یہ تسلیم کیاجاتا ہے کہ ہمیں افغان جہاد کا ایسا پارٹنر نہیں بننا چاہئے تھا کیونکہ یہ اسی پالیسی کی باقیات ہیں جو پیہم ہمارے گلے پڑی ہوئی ہیں اس حوالے سے اختلافی نقطۂ نظر موجود ہے اصل ایشو یہ ہے کہ جب سوویت یونین کا انہدام ہو گیا تو فوری ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام شریک گروہ جہادی باقیات کا ایشو بھی اسی ذمہ داری سے حل کرتے یوں ایک مستحکم جمہوری افغانستان نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی طورپر پوری دنیا کے لئے ضروری تھا۔ اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنے کے مفاسد آج بشمول امریکہ ہم سب بھگت رہے ہیں ۔اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج افغان سو سائٹی ہم سے بھی کہیں زیادہ بدتر صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ بات طے شدہ سمجھی جانی چاہئے کہ دہشت گردی کے عفریت کو کوئی بھی ملک تنہا ختم کرنے سے قاصر ہے اس کے لئے خطے کے تمام اسٹیک ہولڈز کو عالمی طاقتوں کی معاونت سے آگے بڑھنا ہوگا ہم سمجھتے ہیں کہ لندن میں ہونے والے حالیہ مذاکرات امن و سلامتی کی طرف مثبت پیش رفت ہیں امید کی جاسکتی ہے کہ آگے چل کر دونوں اپنے مشترکہ دشمنوں کو اثاثے نہیں انسانیت کا ناسور تصور کریں گے۔



.
تازہ ترین