• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
minhajur.rab@janggroup.com.pk
تعلیم کسی بھی ملک کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک میں " تعلیم سب کے لیے" کا یا" ʼ تعلیم لازمی" ہے کہ اصولوں پر حکومتی اخراجات کا تعین کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں ابھی تک اس کی اہمیت کوتسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ پرائمری سے لیکر سکینڈری تعلیم تک حکومت کے بجٹ میں اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان کی آبادی میں 50 فیصد سے زائد 22سال یااس سے کم عمر لوگوں کی تعدادہے۔ لیکن اس مستقبل کے سرمایہ کو محفوظ اور مفید بنانے کے لیے کبھی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔ ایک بڑا المیہ ہے کہ پرائمری تعلیم کے لیے صرف 50 فیصد سے کچھ اوپر بچے اسکول میں داخلہ لیتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بھی 50 فیصدبچے 5 سال کی تعلیم مکمل نہیں کرتے اور اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں اندازہ کیجئے کہ صرف 25 فیصد بچے پرائمری تعلیم بمشکل مکمل کرتے ہیں۔ اور پھر ان میں سے کچھ ہی بچے سیکنڈری تعلیم کے لیے جاتے ہیں۔ اورایسے میں اعلیٰ تعلیم کی شرح فیصد آپ خود ہی باآسانی نکال سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں حکومت تو بڑے فخر سے اپنا شانہ چوڑا کرکے بیان دیتی نظرآتی ہے کہ ہم تعلیم کے معیار کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اوراعلیٰ تعلیم کا بجٹ ہم نے دوگنا کردیا ہے۔ اب ذرااعلیٰ تعلیم کی بھی بات ہوجائے جس میں بمشکل 1-5 فیصد لوگ پہنچتے ہیں۔
اس میں بھی زیادہ بجٹ ریسرچ پیپرز کرنے، کانفرنس اٹینڈکرنے، بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے، یا پوسٹ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے مختص کئے جاتے ہیں۔ کیا صرف یہ سب اعلیٰ معیار تعلیم کے اشاریہ ہیں؟ادھر نجی جامعات کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے اسٹوڈنٹس کو اپنا "ـClientـ" سمجھتی ہیں۔ یعنی ہرحال میں انہیں اپنے کلائنٹ کو" خوش رکھنا" ہے۔ یوں ڈگریاں بک رہی ہیں۔ تعلیم کا معیار اعلیٰ نہیں ہورہا۔ ایک بیرونی ریسر چ کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ترقی پذیر ملکوں کا معیار تعلیم بہت پست ہے۔کیونکہ یہاں معیار کو اہمیت دینے کے بجائے مقدرکواہمیت دی جاتی ہے۔ اور اسی مقدار کی بدولت وہ ادارے یا جامعات نمبرون قرار دی جاتی ہیں جنہیں عوام نمبرون نہیں سمجھتی ۔وجہ یہی ہے کہ معیار کو ناپنے کا کوئی پیمانہ(اشاریہ)نہیں ہے۔ اسی لیے مقدار کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ سیکنڈری اور ہائرسکینڈری کا براحال ہے۔ امتحانات کا انعقاد اس قدر ناقص ہے کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود آج تک نقل پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ لڑکیوں کے امتحانی مراکز میں نسبتاً کم نقل ہوتی ہے۔ لیکن لڑکوں کے امتحانی مراکز کا براحال ہے ایک سیٹ پر چار چار لڑکے بیٹھ کر پیپرز دیتے ہیں۔ نقل کے لیے کتابیں ان کے سامنے ہوتی ہیں۔ جب نگرانی کی ٹیم دورہ کرنے نکلتی ہے تو پہلے سے آگاہ کردیاجاتاہے ۔ ایسے میں بچوں سے نقل کے آلات لے لیے جاتے ہیں۔ دس پندرہ منٹ معائنہ کرنے کے بعدوہ ٹیم روانہ ہوجاتی ہے۔اور پھر وہ ہی " ہنگامہ" شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے میں وہ بچے کیا سیکھ رہے ہیں؟ اور کیامعیار ان کو دیا جارہا ہے؟ پیپرز میں نقل کرانے کے لیے باقاعدہ امتحانی مراکز کی بولی لگتی ہے۔ ایسے میں آپ خود ہی اندازہ لگالیں۔ یہ کون سی مافیا ہے؟دوسری طرف ایک ٹیوشن مافیا ہے۔ جس کا کام امتحان کی تیاری کروانا ہوتا ہے ۔ یہ صبح سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں ٹیوشن کی اہمیت پر " روشنی" ڈالتی ہے اور پھر شام کو اس روشنی سے اپنے ٹیوشن سینٹرز منورکرتی ہے ۔ آج کا طالب علم کالج اسکول جانا نہیں چاہتا لیکن ٹیوشن سینٹرز بڑی پابندی سے جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں اسے امتحان میں آنے والے سوالوں کے جوابات ذہن نشین کرائے جاتے ہیں۔ ایسے میں بچہ پوری کتاب پڑھ کر کیوں اپنے ذہن پر بوجھ لے؟دوسری طرف انہیں سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ امتحانات میں "Paper setters"ہوتے ہیں۔ اورانہیں کے زیراثر ٹیوشن سینٹرزچلتے ہیں ایسے میں 90 فیصد سے اوپر نمبر حاصل کرنے کے لیے صرف پیسے ہی توخرچ کرنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہورہا ہے؟ہم اپنی نسل کو کیابنارہے؟ کیا جب انہیں تعلیم حاصل کرنے کے شارٹ کٹس سیکھائے جارہے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کےحصول کے لیے یہ کتنے مخلص ہوں گے؟ 14 سال سے بگڑی عادت کو بآسانی چھوڑ سکیں گے؟ نہیں ایسا ممکن نہیں۔ اسی لیے اعلیٰ تعلیم پرباوجود اتناخرچ ہونےکہ معیار کو برقرار نہیں رکھاجاسکاہے۔ ذراغور کریں کیا ہم خود کش بمبار خود نہیں تیارکررہے؟تعلیمی نظام "تعلیم یافتہ "یا "Human Capital" نہیں" کرپشن کے ایکسپرٹ" نکال رہا ہے۔ بڑی معذرت کے ساتھ اب بھی سنبھل جانا چاہیئے پیسہ کمانے کے لیے بہت سے اوردوسرے پیشے موجود ہیں۔ تعلیم کوبزنس نہ بنایئے آپ استاد ہوں، طالب علم ہوں، پرنسپل ہوں، بورڈز کے چیئرمینزہوں یا وی سی ہوں، معیار پہ مقدار کو فوقیت نہ دیجیے۔ملک کے سب سے بڑے سرمائےکوضائع ہونے سے بچائے۔


.
تازہ ترین