• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کس کس بات کا رونا روئیں! ... گل وخار…سیمسن جاوید

یوں تو لکھنے کے لئے بہت سے ایشوز میرے سامنے ہیںمگر ہم سب بھیڑ چال کا شکار ہیں ۔ایک طرف لندن پر حملے کا سانحہ جسے فرد واحد کا فعل قراردیا جا رہا ہےتو دوسری طرف پاکستان جہاںمردم شماری ہے۔پاناما کیس کا محفوظ عدالتی فیصلہ، حسین حقانی کا معاملہ، مریم نواز کے آئندہ ہونے والی وزیراعظم کے چرچے، عمران خان کی بے چینی ، وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ، نیا پاکستان بنانے کا خواب کبھی روشن تو کبھی دھندلکے کی اوڑھ میں۔مگر ہمیں تو قائد اعظم کے پاکستان کی فکر لاحق اور تلاش ہے ۔اس لئے کہ مسیحی اقلیتی نمائندوں نے قائداعظم کا غیر مشروط بنیادوں پر ساتھ دیا تھااور قائداعظم نے انہیں یکساں حقوق دینے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ایسا پاکستان جہاں ہر کسی کو مکمل آزادی ہو،سیاست اور مذہب اپنا اپنا رول اداکریں ۔جہاںفرقہ واریت یا مذہب کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہ ہو ،جہاں اعلیٰ یا ادنیٰــ کا تصور نہ ہو۔ہر کوئی ایک دوسرے کو عزت دے،لوگ قانون کا احترام کریں،اپنے وطن سے پیار کریں اور دولت کی خاطر دہشت گردوں کا سہولت کار بننے کی بجائے خود اْن کو قانون کے حوالے کریں۔عدالتی فیصلے امیری یا غریبی کی بنیاد پر نہ ہوں،روٹی ،کپڑا اور مکان کے لئے لوگوں کوجرم نہ کرنا پڑے ،خواتین کو احترام ملے ۔ایسا پاکستان جہاں کرپشن کرنے والے کوقانون کے مطابق، خود کو گولی مارنے کیلئے اپنے پیسوں سے گولی خریدنا نہ پڑے مگر یہ کیسے ممکن ہوگا۔اگر ہمارے حکمران ذاتی مفادات کی بجائے عوامی مفادات کو ترجیح دیں۔لوگوں کی سوچ و فکر اور رویوں میں تبدیلی آئے، عدالتی نظام درست ہو اورقانون پر عمل درآمد کرنے والوں میں اتنی استطاعت ہو کہ وہ ہر کسی کو قانون پر عمل درآمدکرواسکیں۔ بقول علامہ اقبال ۔ملت کے ساتھ ربط استوار رکھ۔پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
گذشتہ روز میرے ایک دوست چوہدری تھامس سہوترہ پاکستان سے اپنے والد محترم کی خیر و عافیت دریافت کرنے کے بعد واپس لندن آئے تو میں نے حال احوال کے بعد وطن عزیز اور قوم کا حال بھی پوچھا کہ کیا وہاں کوئی تبدیلی آئی ہے۔چوہدری صاحب جو منافقت کو سخت نا پسند کرتے ہیںاور ہیرپھیر کرنے کی بجائے صاف اور سیدھی بات کرتے ہیں۔سیاست اور بدلتے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔سیاسی نمائندوں سے ان کی بالکل نہیں بنتی اس لئے کہ وہ باتیں زیادہ اور کام کم کرتے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں میںکارپوریشن میں خاکروبوں کی ملازمت کا اشتہار شائع ہوا تھا جس میں مذہب کا خانہ اور اس میں ہندو،عیسائی،بالمیک اور شیعہ لکھا گیا تھا۔اقلیتی نمائندوں نے اس سلسلے میں کچھ کیاہے؟ ۔تو وہ بولے، کہ ہمارے نمائندوں میں اتنا دم خم کہاں کہ وہ اپنے جائز حق کے لئے آواز اٹھائیں ۔میں نے کہا کہ میرے علم میں آیا ہے کہ مردم شماری کے فارم میں مذہب کے خانے میں عیسائی کی بجائے مسیحی شائع کیا گیا ہے۔ وہ پھر بلا تاخیر بولے یہ سیاست دانوں کی وجہ سے نہیں ۔بلکہ فیصل آباد کے لوگوں کے شور مچانے کی وجہ سے حکومت نے تبدیل کیا ہے۔میں نے انہیں بتایا کہ ملازمت کے اشتہار میں شیعہ کا پہلی دفعہ لکھنے پر ایک ذمہ دارافسر اور دو ملازموں کو نوکریوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔اْنکا جواب تھا کہ شیعہ خود کو مسلم کہلاتے ہیں اور ہر دوسری بڑی پوسٹ پر شیعہ مسلک رہ چکا ہے ان سے کوئی زیادتی نہیں کر سکتا۔ہم میں یکجہتی کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ ہم پر درجہ چہارم کا لیبل لگا دیا گیا ہےتاکہ ہماری قوم کمپلیس سے باہر نہ نکل سکی۔اوریہ انہیںدباکر رکھنے کا نفسیاتی ہتھیار بھی ہےبحیثیت ایک مذہبی اقلیت ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔کس کس بات کا رونا روئیں اور کس کس چیز پر احتجاج کریں۔ ان کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ ان کی باتوں میں کتنی سچائی ہے جب ہی تو میرے اندر کا غصہ اور حب الوطنی میری تحریروں میں نظر آتی ہے۔اور میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنی بے نواح قوم کی صدا بنوں۔اسکے لئے میں روز نامہ جنگ کا نہایت مشکور ہوں۔

.
تازہ ترین