• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلیکشن،مذاق اور پی سی بی ...اسکور …سیدیحییٰ حسینی

محدود وسائل ، عہدوں پر من پسند اشخاص کی تقرری اور کھیلوں کے معاملے میں حکومت وقت کی عدم دل چسپی وہ اہم محرکات ہیں جو پاکستان میں کھیلوں کے لئے کینسر جیسے موذی مرض کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہاکی فیڈریشن میں حکومت وقت کی آ شیرباد سے سیکریٹری کے عہدے پر بیٹھ کر شہباز سنئیر ملک میں ہاکی کا رہا سہا مقام بھی دائو پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں، دوسری جانب ملک کے سب سے من پسند کھیل کرکٹ میں قومی سلیکشن کمیٹی کے فیصلے کامیڈی کنگ بنتے جا رہے ہیں۔ سابق ٹیسٹ کپتان راشد لطیف ماضی کی سلیکشن کمیٹی کے لئے’’ جوکروں کا ٹولہ‘‘ کے الفاظ استعمال کرچکے ہیں ،البتہ انضمام الحق کی سلیکشن کمیٹی کے ٹولے میں موجود توصیف احمد ، وسیم حیدر اور وجاہت اللہ واسطی واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ کیمپ کے لئے اعلان کردہ کھلاڑیوں کی فہرست میں دو ، دو تین ، چار نام تجویز کر کے اپنی نوکری میں ملنے والے لاکھوں روپے کی تنخواہ لینے کا جواز ڈھونڈ لیتے ہیں، سلیکٹرز کے سربراہ محترم انضمام الحق ہیں جنھوں نے اپنے سولہ سال کے کیریئر میں فٹنس کے لفظ کو کبھی قریب پھٹکنے نہیں دیا، آج عمر اکمل کو صرف اسی جواز پر ویسٹ انڈیز نہیں بھیج رہے، البتہ پاکستان کپ میں وہی عمر اکمل کو پنجاب کے کپتان کے طور پر ساتھ بٹھا کر ٹیم بنانے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں ، جو کھلے تضاد کے مترادف ہے، انضمام الحق فرماتے ہیں ،ٹی 20فارمیٹ میں اسڑائیک ریٹ کی اہمیت ہے، اور ویسٹ انڈیز کیلئے بابر اعظم ، محمد حفیظ اور شعیب ملک بالترتیب تیسرے ، چوتھے اور پانچویں نمبر پر باری لیں گے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، سلیکشن کمیٹی نے صرف پاکستان سپر لیگ کے بہترین بولر سہیل خان سے انصافی نہیں کی بلکہ پاکستان کپ کی سلیکشن سے بھی واضح طور پر یہ پیغام دیدیا کہ جس طرح پی سی بی نے سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کے طور پر سابق کپتان کو عہدہ دے کر ملک کے سلیکشن کے معیار کو شفاف بنانے کا ڈرامہ رچایا ہے اسی طرح سلیکشن کمیٹی بھی کام کریگی۔ واضح مثال ویسٹ انڈیز کے دورے کے لئے ٹیم سلیکشن کے وقت سلیکٹر توصیف احمد کا لاہور کے بجائے دبئی میں قیام تھا، جس نے بتا دیا سلیکشن کمیٹی اپنے کام میں کتنی سنجیدہ ہے، پی سی بی کی گول میز کانفرنس کو سابق کرکٹرز نے کراچی کے بعد لاہور میں بھی اہمیت نہ دی، ہاں وہ سابق کرکٹرز اس کانفرنس میں زبردستی آنے پر مجبور رہے ، جنھوں نے سفارش پر بورڈ میں نوکری حاصل کر رکھی ہے، دورہ ویسٹ انڈیز کے بعد انڈر 23ٹیم کے انتخاب کے بعد مجھے انتہائی افسوس سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ سلیکشن کمیٹی ’’ڈمی‘‘ ہے اور اس کے فیصلے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بہتر مستقبل کی تو ہر گز کوئی راہ متعین نہیں کر رہے۔ پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ میں ایک تنائو کی سی کیفیت ہے،حیران کن امر یہ ہے کہ نجم سیٹھی جیسے بہترین صحافی کے ہوتے ہوئے معاملات کی سمت کا تعین ہو نہیں پا رہا، کھلا ثبوت پاکستان سوپر لیگ کے دوران صحافیوں کے بننے والے ایکریڈیٹیشن کارڈ تھے، جنھیں گلے میں ڈالنے والے بعض حضرات تو ایسے تھے، جن سے اگر یہ سوال کر لیا جاتا آپ کا یہ میڈیا گروپ پاکستان کے کس شہر سے تعلق رکھتا ہے تو وہ جواب بھی نہ دے پاتے، پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی اور دیگر معاملات پر تنقید کر نے پر اکثر اوقات مجھے یہ سننا پڑتا ہے کہ آپ بہت سخت تجزیہ کرتے ہیں، انھیں میرا یہی جواب ہوتا ہے ، اور پھر آج لکھ رہا ہوں ، ملک میں کرپشن ، اقربا پروری پر ادارے تباہ ہو رہے ہیں، ہمارا کام نظام کو درست کرنا نہیں ہے، میڈیا کا کام اچھے کاموں کی پذیرائی اور غلط کاموں کی نشاندہی ہے، جسے کرنے کی صحافی حضرات کوشش کرتے ہیں، جس پر لوگ عموماً ناراض ہو جاتے ہیں، اب بھلا سچ کہنے اور سننے کی کہاں معاشرے میں گنجائش رہی ہے، خیر اب ایسا بھی نہیں ، مایوس نہیں ہونا چاہیے، پاکستان کا آنے والا کل اچھا ہوگا، پاکستان زندہ باد
yahya.hussaini@geo.tv

.
تازہ ترین