• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی گزشتہ سال کی مجموعی برآمدات چھ سو ستر ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جبکہ جاپانی درآمدات کا حجم پانچ سو نواسی ارب ڈالر ریکارڈکیا گیا ہے یعنی جاپان کی مجموعی تجارت اکیاسی ارب ڈالر کے فرق کے ساتھ جاپان کے حق میں رہی ہے یہ کسی بھی ملک کی معیشت کی بہت بڑی کامیابی شمار کی جاتی ہے،اگر جاپان کی برآمدات کا جائزہ لیا جائے تو برآمدات میں گاڑیوں کا نمبر سب سے پہلے آتا ہے جاپان سے گزشتہ سال گاڑیوں کی برآمدات کا حجم ترانوے ارب ڈالر،دوسرے نمبر پر آئی سی چپ یعنی الیکٹرونک سرکٹ ہے، کی برآمدات کا حجم تیس ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہےجبکہ انڈسٹریل پرنٹرز کی برآمدات کا حجم چودہ ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے،یہی نہیں جاپان سمندری جہاز تیار کرنے میں بھی ماہر ہے اور ان جہازوں کی برآمدات سے بھی جاپان نے گیارہ ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ حاصل کیا،یہ وہ صنعتی برآمدات ہیں جن کا حصہ جاپانی برآمدات میں سالانہ دس ارب ڈالر سے زائد ہے ورنہ ایسی سینکڑوں اشیاءہیں جو جاپان دنیا بھر میں برآمد کرتا ہے اور اپنی مجموعی برآمدات کو سالانہ چھ سو ستر ارب ڈالر کے حجم تک پہنچا دیتاہے،بلاشبہ جاپان کے ساڑھے بارہ کروڑ عوام اور جاپانی حکومت اس شاندار کارکردگی پر مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ پاکستان جیسا ملک جس کی آبادی بیس کروڑ سے زائد ہے اور ہماری برآمدات کا حجم مشکل سے بھی پچیس ارب ڈالر تک نہیں پہنچ پاتا، بہر حال پاکستان جیسے تیسری دنیاکے ملک کا جاپان جیسی معیشت سے مقابلہ کرنا انصاف نہیں ہے لیکن سیکھنے کے لئے جاپان جیسا ملک پاکستان کے لئے رول ماڈل کی حیثیت ضرور رکھتا ہے، جہاں تک درآمدات کی بات ہے تو جاپان کی معیشت کے لئے سب سے اہم گیس اور کروڈ آئل شمار کیے جاتے ہیں،گزشتہ سال جاپان کی درآمدات میں گیس کی درآمد کا حجم سینتالیس ارب ڈالر اورتیل کی درآمد کا حجم چالیس ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے،جہاں ایک طرف جاپان آئی سی چپ برآمد کرتا ہے وہیں دیگر ممالک سے درآمد بھی کرتا ہے اور گزشتہ سال جاپان کی آئی سی چپ کی درآمدات کا حجم سترہ ارب ڈالر رہا،اسی طرح ٹیکسٹائل اور دیگر پیکج اشیاء کی درآمدات بھی سولہ ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں،کمپیوٹرز اور دیگر الیکٹرونک اشیاء کی درآمدات بھی سولہ ارب ڈالر تک رہیں، جاپان کی جانب سے سب سے زیادہ برآمدات امریکہ کو کی گئیں جس کا حجم ایک سو اٹھائیس ارب ڈالر ہے دوسرے نمبر پر جاپان سے کی جانیوالی برآمدات چین کو کی گئیں جس کا مجموعی حجم ایک سو سولہ ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا، جنوبی کوریا کو جاپان سے چوالیس ارب ڈالر کی برآمدات کی گئیں، ہانگ کانگ جیسے چھوٹے سے ملک کو بھی جاپان سے سالانہ تینتیس ارب ڈالر کی برآمدات کی گئیں،جبکہ دیگر ایشیائی ممالک کو جاپان سے تیس ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی گئیں،اسی طرح اگر جاپان کی جانب سے سالانہ درآمدات کا جائزہ لیا جائے تو جاپان نے سب سے زیادہ درآمدات چین سے کی ہیں جس کا حجم ایک سو باون ارب ڈالر ہے یعنی چین جاپان کا دنیا میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے جس کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا حجم تقریباََ تین سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوجاتا ہے، واضح رہے کہ دونوں ممالک کے سیاسی اور تاریخی تعلقات کسی بھی طرح پاکستان اور بھارت سے کم کشیدہ نہیں ہیں لیکن دونوںممالک نے سیاست ایک طرف اور تجارت ایک طرف کا اصول اپنایا ہے،چین اور جاپان کے درمیان ہونے والی تجارت میں سیکھنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے لئے بہت کچھ ہے،چین کے بعد جاپان کی درآمدات کا سب سے بڑا مرکز امریکہ ہے جہاں سے سالانہ درآمد تریسٹھ ارب ڈالر ہے،آسٹریلیا سے تیس ارب ڈالر اور جنوبی کوریا سے پچیس ارب ڈالر سالانہ جاپانی درآمدات کی جاتی ہیں جبکہ تیل اور گیس کی درآمدات میں متحدہ عرب امارات اولین سطح پر ہے جہاں سے سالانہ اکیس ارب ڈالر کی درآمدات کی جاتی ہیں، جاپان کے حوالے سے شاید تمام ہی قارئین یہ بات جانتے ہوں کہ جاپان ایک جزیرہ نما ملک ہے جس کی خشکی کے ذریعے کسی بھی ملک سے سرحدیں نہیں ملتیں تاہم سمندری سرحدوں کے ذریعے جاپان کے جو قریبی ممالک ہیں ان میں چین،جنوبی کوریا، فلپائن،شمالی کوریا،تائیوان اور روس شامل ہیں،کئی ممالک کے ساتھ جاپان کے سرحدی تنازعات بھی موجود ہیں جن کے پر امن تصفیے کے لئے ہمیشہ ہی جاپان بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے کوشش کرتا ہے، ان سرحدی تنازعات کے باوجود جاپان کے مذکورہ ممالک کے ساتھ کبھی بھی تجارتی تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا ہے۔
جاپان کا شمار امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر کیا جاتا ہے،اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ جاپان کی برآمدات اور درآمدات اس کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے قابل دید ہیں، گزشتہ سال جاپان کی مجموعی برآمدات کا حجم چھ سو ستر ارب ڈالر رہا، جاپان کی معیشت میں درآمدات کا حصہ پانچ سو نواسی ارب ڈالر رہا ہے یعنی مجموعی طور پر جاپانی درآمدات اور برآمدات کا حجم 1259ارب ڈالر رہا ہے۔امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے جس کی آبادی پچیس کروڑ سے زائد ہے اور چین دنیا کی دوسری معیشت کے طور پر سر فہرست ہے اس کی آبادی سواارب نفوس کے لگ بھگ ہے جبکہ جاپان صرف ساڑھے بارہ کروڑ آبادی رکھنے کے باوجود چالیس ہزار ڈالر فی کس سالانہ آمدنی کے ساتھ تیسری بڑی معیشت کے طور پر موجود ہے،ایشیا کے کئی ممالک جیسےچین،تھائی لینڈ، ویت نام، ملائیشیا، تائیوان اور جنوبی کوریا کی معاشی ترقی کو بھی دیکھا جائے تو جاپان کی ہی مرہون منت ہے کیونکہ جاپان سے ان ممالک میں کی جانیوالی مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی بدولت مذکورہ ممالک میں صنعتی ترقی کی بنیا د ڈالی گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ممالک بھی تیزی سے ترقی کے سفر پر گامزن ہوئے،پاکستان ایشیاکا انتہائی اہم ملک تو ضرور ہے لیکن پاکستان کی معیشت کی ترقی کبھی بھی تسلی بخش شمار نہیں کی جاتی جس کی وجہ پاکستان میں عالمی سرمایہ کاری کے ماحول کانہ ہونا ہے اور اس کی وجہ حکومت کی ناقص کارکردگی ہی ہے،ورنہ جس ملک کی بیس کروڑ آبادی ہو،نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود ہو، ساحل، دریا ہوں، میدان ہو غرض ترقی کرنے کے تمام قدرتی وسائل موجود ہوں تو صرف ضرورت ایک مخلص قیادت کی ہوتی ہے جو قوم کا رخ ترقی کی جانب موڑ دے بدقسمتی سے ہماری قوم کو تاحال وہ قیادت دستیاب نہیں ہوئی جو قوم کا رخ ترقی کی جانب موڑ سکے، اگر حکومت چاہے تو صرف جاپان پر ہی فوکس کرکے نہ صرف پاکستان کی برآمدات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے بلکہ جاپانی سرمایہ کاری کو ممکن بنا کر پاکستان کو ایشیاکی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن وہ حکمراں کہاں سے لائیں جو قوم کی تقدیر بدل سکیں؟



.
تازہ ترین