• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ نظام قدرت ہے کہ مختلف ادوار میں ایسے ذہین و فطین لوگ جنم لیتے رہے جنہوں نے بنی نوع انسانوں کے لئے بڑی ہی دانائی کی باتیں رقم کیں، سالہا سال کے تجربوں کا نچوڑ یہ تعلیمات کتابی شکل میں ہزار ہا سالوں سے محفوظ چلتی چلی آرہی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ دانا اور فلسفی لوگ قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جن علم دوست انسانوں نے ان فلسفیوں کے علم و تجربے سے استفادہ کیا وہ زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہوگئے۔ دور جدید میں علم سیاسیات یا پولیٹکل سائنس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، اس حوالے سے ارسطو، افلاطون، کنفیوشس اور میچی ویلی کی فلسفیانہ تعلیمات کو بہت شہرت حاصل رہی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم میں موجودہ پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا میں ایک ایسا فلسفی پیدا ہوا جس کا تاحال کوئی ثانی سامنے نہیں آسکا ہے اور اس فلسفی کا نام چانکیہ ہے جس نے ایک کنیز زادے چندر گپت موریا کو اپنی دانائی و حکمت کے ناقابلِ شکست ہتھیاروں سے لیس کرکے ہندوستان کی عظیم الشان موریا سلطنت کا بانی بنا دیا، اس زمانے میں جب آدھی دنیا یونانی فاتح سکندر اعظم کے گھوڑوں کے آگے سرنگوں تھی، چانکیہ جی کی سیاسی رہنمائی میں چندر گپت موریا ہندوستان کے طول و عرض میں بکھرے راجواڑوں کو متحد کرکے یونانی افواج کو شکستِ فاش دیکر تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ مورخین کے مطابق چانکیہ جی، جو کوٹلیا اور وشنو گپت کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، کی پیدائش 371قبل مسیح کے عرصہ میں ٹیکسلا میں ہوئی اور انہوں نے ٹیکسلا ہی میں ساری زندگی گزار دی، ٹیکسلا ہی میں اپنی فلسفیانہ کتاب ارتھ شاستر تحریر کی جس کی روشنی میں چانکیہ جی نے عملی طور پر ثابت کیاکہ دنیا میں کامیابی کا حصول ناممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج دورجدید میں بھی چانکیہ جی کی تعلیمات کا بول بالا ہے،حیرت انگیز طور پر چانکیہ جی کی شہرہ آفاق تصنیف میں انسانی معاشرے کے تمام تر شعبوں کو زیر قلم لایا گیا ہے، یہ لازوال کتاب اس وقت تحریر کی گئی جب دنیا تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، ارتھ شاستر میں چانکیہ جی نے علوم و فنون، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسم و رواج، توہمات، ادویات، فوجی مہمات، سیاسی و غیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر موضوع پر اپنی دانائی کے موتی بکھیرے ہیں۔ فارغ اوقات میں چانکیہ جی کی یہ عظیم کتاب ارتھ شاستر میرے زیر مطالعہ بھی رہتی ہے جس کے چند اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا۔ کسی شخص کو بے حد ایماندار ہرگز نہ ہونا چاہئے، سیدھے اگے ہوئے درخت کو پہلے کاٹ ڈالا جاتا ہے، اسی لئے بے حد ایماندار افراد کا پہلے قلع قمع کر دیا جاتا ہے۔ اگر سانپ زہریلا نہ بھی ہو تو فطرتاً وہ زہریلا پن ظاہر کرتا ہے۔ سب سے بڑا گرو منترا یہ ہے کہ اپنے راز کبھی بھی کسی سے شیئر نہیں کرنے چاہئیں، اگر راز شیئر کئے گئے تو تباہی لازمی ہے۔ ہر دوستی کی پشت پر لازماً سیلف انٹرسٹ ہوتا ہے، کوئی دوستی سیلف انٹرسٹ کے بغیر نہیں ہوا کرتی، یہی زندگی کی تلخ حقیقت ہے۔ ہر کام شروع کرنے سے پہلے اپنے آپ سے تین سوال کرنا ضروری ہیں، میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں؟ اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ کیا میں اس کام میں کامیاب ہوں گا؟ تینوں سوالات کے جوابات کے بارے میں دانائی کے ساتھ غور و فکر کیا جائے، اس کے بعد جوش خروش کے ساتھ کام کو سر انجام دیا جائے، جب کوئی کام شروع کر دیا جائے تو ناکامی کا تصور بھلا دیا جائے، دلجمعی کے ساتھ کام سرانجام دینے والے ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ جیسے ہی خوف قریب تر آجائے حملہ کر کے مار ڈالا جائے۔ انسان کی عظمت اس کی پیدائش میں نہیں بلکہ کارکردگی میں ہوتی ہے۔ جوان اولاد بہترین دوست ثابت ہوتی ہے۔ کتابیں جاہل کے لئے ویسے ہی کارآمد ہوتی ہیں جیسے نابینا کے لئے آئینہ۔ تعلیم بہترین دوست ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کی عزت ہر جگہ کی جاتی ہے۔ تعلیم حسن اور جوانی کو مات دیتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان نے ایسی کارآمد تعلیمات دینے والے چانکیہ جی کو برہمن گردانتے ہوئے اپنے عظیم سپوت سے رشتہ توڑ لیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بسنے والوں کے سامنے چانکیہ جی کو عیاری و مکاری سے منسلک کرکے بطور منفی شخصیت کے پیش کرنا اپنی ہی تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دنیا کے لئے چانکیہ جی اتنے مہان عظیم مدبر اور اعلیٰ شخصیت ہیں کہ نہ صرف انکا نام پولیٹکل سائنس کے بانیوں افلاطون اور ارسطو کے ساتھ لیا جاتا ہے بلکہ محققین انہیں آدم اسمتھ کی کلاسیکی اکانومی سے پہلے کے دور کی عظیم ترین ماہر معیشت قرار دیتے ہیں، چانکیہ جی کی قائم کردہ ٹیکسلا یونیورسٹی کو دنیا کی قدیم ترین درسگاہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے لمحہ ضائع کئے بغیر چانکیہ جی کو اپنا قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے چانکیہ اکیڈمی کے نام سے ایک ایسا انسٹیٹیوٹ قائم کر دیا ہے جس میں تمام ریٹائرڈ جرنیل اور دیگر دانشور ہمہ تن مصروف ریسرچ رہتے ہوئے اپنے ملک کو عظیم تر بنانے کے منصوبے تیار کرتے ہیں، علاوہ ازیں تقسیم ہند کے بعد چانکیہ جی کی سفارتی محاذ پر خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے دارالحکومت نئی دہلی میں قائم ڈپلومیٹو انکلیو کو چانکیہ پوری کا نام دے دیا گیا، امریکی چیف جسٹس ارل وارن نے امریکی سفارت خانے کا سنگ بنیاد چانکیہ پوری میں رکھتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا کے پاس حضرت مسیح کی ولادت سے تین سو سال پہلے ایک ایسا عظیم دانشور تھا جس نے آگاہ کیا کہ ایک حکمران ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنی رعایا کو کسی صورت ناخوش نہیں کرسکتا اور اسے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہئے جس سے اس کے عوام اسے ناپسند کرنے لگیں۔ برحق یہ ہے کہ چانکیہ ایک عظیم فلسفی تھا جس نے اپنی عظیم کتاب ارتھ شاستر میں تمام انسانوں کو عملی زندگی میں کام آنے والی تعلیمات سے روشناس کروایا، ہرچند کہ یہ کتاب سنسکرت زبان میں تحریر کی گئی تھی لیکن اس کے تراجم انگریزی سمیت متعدد زبانوں میں کئے جا چکے ہیں جس میں اردو بھی شامل ہے، چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کے تین بنیادی حصے انتظامیہ، ضابطہ قانون و انصاف اور خارجہ پالیسی امور پر مشتمل ہیں لیکن ہم نے چانکیہ جی کوسیاسی داؤ پیچ، خارجہ پالیسی اور دشمن کے عزائم سے آگاہ رہنے کیلئے جاسوسی اور سبوتاژ کی کارروائیاں کرنے کے طریقے سکھانے کی وجہ سے نفرت کی علامت بناتے وقت یہ نہیں سوچا کہ یہ حربے ہر دور میں ہر ریاست اختیار کرتی آرہی ہے، جن میں ماضی کی مسلمان حکومتیں بھی شامل ہیں اور عصرحاضر کے جدید ممالک بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں اپنی تاریخ کے عظیم سپوت سے وابستہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ٹیکسلا میں چانکیہ جی کے نام سے منسوب ایک ایسی عالمی معیار کی یونیورسٹی قائم کرنی چاہئے جو سیاسیات اور عمرانیات کے علوم کے فروغ کیلئے مخصوص ہو، چانکیہ جی کے شہر ٹیکسلا میں انٹرنیشنل چانکیہ یونیورسٹی فار پولیٹکل اینڈ سوشل سائنسز کے دروازے دنیا بھر سے علم کے پیاسے طالب علموں کیلئے کھولنے سے پاکستان کا مذہبی تعصب سے پاک علم دوست مثبت امیج بھی عالمی سطح پر اجاگر ہوگا۔



.
تازہ ترین