• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ چارسدہ: کابل حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے

اس بات میں اب شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیںرہی کہ بدھ کو باچاخان یونیورسٹی چارسدہ پر دہشت گردوں کے حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے وہ عناصر ملوث ہیں جو آپریشن ضرب عضب کے بعد فرار ہوکر اپنے ان سرپرستوں کے پاس افغانستان چلے گئے جنہوں نے پہلے سے وہاں اپنے خفیہ اڈے قائم کررکھے ہیں اور پاکستان کے حساس مقامات، سکیورٹی فورسز، تعلیمی اداروں اور عوامی اجتماعات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جمعرات کو کابل میں افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور ایساف فورسز کے کمانڈر جنرل جان کیمبل کے علاوہ ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شریک صدر اشرف غنی سے ٹیلیفون پر رابطے کئے، انہیں افغانستان میں حملہ آوروں کے ٹھکانے اور موبائل نمبروں سمیت تمام شواہد سے آگاہ کیا اور حملے کے ذمہ داروں تک پہنچنے میں تعاون کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی جو ڈیوس کانفرنس میں شریک ہیں، پاکستان میں سویلین اور ملٹری انٹیلی جنس کے حکام کو درجن بھر کالیں کیں اور دہشت گردوں کو گرفت میں لینے اور حملے کے زخمیوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ کابل حکومت کے اس دعوے کے باوجود کہ پاکستان کا دشمن افغانستان کا دشمن ہے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والوں کو سرحدپار دہشت گردوں کے ایک اڈے سے کنٹرول کیا جا رہا تھا اور فون پر ہدایات دی جا رہی تھیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا آپریٹوفون پر دہشت گردوں سے رابطے میں تھا اور ایک دہشت گرد کے مرنے کے بعد بھی اس کے موبائل پر افغان سم سے کالیں آرہی تھیں۔ حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے جیدار گروپ نے قبول کی ہے۔ یہ وہی گروپ ہے جو آرمی پبلک سکول پشاور اور بڈبیر کے ایئرفورس کیمپ پر حملے میں ملوث تھا۔ پاکستانی طالبان کا امیر ملافضل اللہ افغان علاقے میں موجود ہے جس کے خلاف پاکستان کے بار بار مطالبے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس گروپ کے افغان انٹیلی جنس اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے بھی رابطے ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت کو اس حوالے سے تمام ثبوت فراہم کردیئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے سرگرمی سے مجرموں کا تعاقب کر رہے ہیں۔ اب تک حملے کے چار سہولت کار اور تقریباً بیس مشتبہ افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان نے اپنے طور پر دہشت گردوں کے خاتمے اور ان کے فرار کے راستے بند کرنے کے انتظامات کئے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر ایک لاکھ 83ہزار فوجی تعینات ہیں۔ فضائی نگرانی بڑھا دی گئی ہے اور مقامی قبائل کی بھی خدمات حاصل کی گئی ہیں لیکن ایک تو سرحد بہت طویل اور پرپیچ ہے، دوسرے، سرحد کی دوسری جانب دہشت گردوں کے اڈے بھی قائم ہیں جہاں سے ان کی مدد کی جا رہی ہے۔ننگرہار اور کنٹر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں ڈرون حملے کئے جاتے ہیں نہ افغان فوج کوئی کارروائی کرتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے نشاندہی تو کردی ہے کہ شناختی دستاویزات کے بغیر پاکستان میں کسی کو داخل نہ ہونے دیا جائے مگر اس معاملے میں خود ان کی حکومت کا کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ چارسدہ یونیورسٹی پر امکانی حملے کی اطلاعات دس روز قبل ملنے کے باوجود یونیورسٹی کے حفاظتی انتظامات سخت نہیں کئے گئے۔دہشت گردوں کی اپنی ایک حکمت عملی ہے۔ وہ فورسز کا مقابلہ نہیں کرسکتے اسلئے انہوں نے پرامن شہریوں اور درسگاہوں کے آسان اہداف کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کا امن دونوں ملکوں کے اشتراک عمل پر منحصر ہے۔ پاکستان اپنے حصے کا کام کررہا ہے۔ افغانستان کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ آرمی چیف نے افغان حکام اور ایساف کمانڈر کو بروقت اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے۔ کابل حکومت کو زبانی ہی نہیں، عملی طور پر بھی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔












پاور بریک ڈاؤن: حادثہ یا نااہلی؟
بجلی کے ترسیلی نظام کے مکمل طور پر مفلوج ہوجانے کے سبب وفاقی دارالحکومت، پنجاب ، خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے کم و بیش ساٹھ فی صد حصے میں پورا نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔ بتایا گیا ہے کہ اوور لوڈنگ کی وجہ سے گزشتہ سہ پہر گدو تھرمل پاور پلانٹ کے پانچ سو کے وی کے ڈسپیچ گرڈ کے پی تھری ٹرانسفارمر میں آگ بھڑک اٹھی،جس سے اس پلانٹ کے تمام پاور جنریشن یونٹ بند ہوگئے،یوں دوسرے پاور یونٹس پر لوڈ بڑھ گیا،لہٰذا چند ہی لمحوں میں منگلا، تربیلا، مظفر گڑھ تھرمل، غازی بروتھا،چشمہ اور آئی پی پی لال پیر پلانٹس اور ٹرانسمیشن لائنیں ٹرپ کرگئیں۔ گدو پاور اسٹیشن میں آگ بجھانے کا کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں جیکب آباد سے بھیجی گئیں جنہیں جائے وقوعہ پر پہنچنے میں کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ یوں بجلی کی بحالی میں پانچ گھنٹوں سے زیادہ وقت صرف ہوا۔تاہم پاور بریک ڈاؤن کی تکنیکی تفصیلات جوں بھی ہوں،بجلی کے نظام میں بہتری اور پیداوار میں اضافے کے مسلسل حکومتی دعووں کے باوجودملک کے بیشتر علاقوں میں ایک ہفتے میں دوبار بیک وقت بجلی کا طویل بریک ڈاؤن متعلقہ حکام اور اداروں کی اہلیت پر بہرحال ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی نصف مدت پوری کرچکی ہیں اور بظاہر بجلی کی پیداوار میں ہزاروں میگاواٹ اضافے کیلئے درجنوں بڑے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے، لیکن بجلی کے ترسیلی نظام کا حال اب تک یہ ہے کہ کسی ایک پلانٹ میں کوئی حادثہ پورے ملک کو تاریکی میں غرق کردینے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس صورت حال کو مجبوری کہنا کسی بھی طرح درست نظر نہیں آتا ۔ ڈھائی سال کی مدت میں بجلی کی پیداوار میں نئے منصوبوں کے ذریعے کوئی بڑا اضافہ تو ممکن نہیں تھا لیکن بوسیدہ ترسیلی نظام کو تو بہرحال بہتر بنایا جاسکتا تھا۔گدو تھرمل پلانٹ میں آگ بجھانے کا انتظام نہ ہونا یقینا متعلقہ ذمہ داروں کی حد درجہ نا اہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ ذمہ دار افراد سے باز پرس کے ساتھ ساتھ کم از کم اب اس نوعیت کی خامیوں کو دور کرنے پر پوری توجہ دی جانی چاہئے ۔

ایمنسٹی اسکیم پر اختلاف رائے
قومی اسمبلی نے جمعرات کو اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے باوجود تاجروں کو چار سال کے لئے ٹیکس ایمنسٹی دینے کا متنازع بل اس وقت منظور کرلیا جب پی ٹی آئی کی ایک رہنما کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے کئے جانے والے ایک انتباہ کے بعد اپوزیشن ایوان سے واک آئوٹ کر چکی تھی۔اپوزیشن کا الزام یہ تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی بل قومی مفادات کے منافی اور ایک مخصوص طبقے کے کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے لایا جارہا ہے اس سے عام فروغ ملے گا لیکن حکمران پارٹی اپنے اس موقف پہ مصر رہی کہ اس بل سے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ 2012ء میں سابقہ حکومت بھی اسی قسم کا ایک بل لائی تھی لیکن موجودہ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے سینٹ میں اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیکس چوروں کورعایت دینا ظلم ہے جس کے بعد یہ بل واپس لے لیا گیا تھا لیکن عجیب بات ہےکہ وہ لوگ جو مذکورہ بل کی سر توڑ مخالفت کررہے تھے اب اسی نوعیت کے ایک دوسرے بل کی حمایت میں یکجاں اور ایک زباں ہوگئے ہیں۔اس حوالے سے ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اس مہینے کے اوائل میں اس بل کا جو اصل ڈرافٹ ایوان میں پیش کیا گیا تھا اس میں قانون سازوں نیز منی لانڈرنگ، منشیات اوردہشت گردی ایسے جرائم میں ملوث افراد کو اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کی رعایت نہیں دی گئی تھی مگر اب اس میں ترمیم کرتے ہوئے ان کےلئے ایک علیحدہ کیٹیگری بنا دی گئی ہے جبکہ ایک دوسری ترمیم کے ذریعے ڈیٹ اور حصص پر منافع کا اعلان کرنے سے روک دیا گیا ہے بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ ایک امتیازی قسم کا بل ہے جس سے تمام ٹیکس دہندگان کی بجائے صرف ایک مخصوص طبقے کو فائدہ ہوگا اور وہ اسے ٹیکس گریزی کا ایک ہتھیاربنالیں گے اس لئے بہتر ہوتا کہ اس حوالے سے اتفاق رائے سے کوئی قدم اٹھایا جاتا اور سب کے لئے قابل قبول قانون بنایا جاتا۔
SMS: #JEC (space) message & send to 8001
تازہ ترین