• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر حلیل توقر سے ہماری دوستی اور محبت طویل اُٹھارہ ،انیس سالوں پر محیط ہے جب وہ تیس سال کے خوب صورت نوجوان تھے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے کسی سیمینار میں شرکت کے لئے یہاں تشریف لائے تھے۔وہیں اُن سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی جس میں ان سے تفصیلی انٹر ویو کا ٹائم طے پایا۔دوسری ملاقات ادارہ بزم اقبال مال روڈ میں ہوئی جو اتنی قربت میں بدل گئی کہ وہ دن اور آج کا دن ،میں کبھی انہیں نہیں بھولا۔اس کے بعد وہ جب بھی لاہور تشریف لائےکسی نہ کسی طرح ملاقات کا شرف بخشتے رہے اور یوں ہم اکٹھے لاہور میں گھومتے بھی رہے ۔بالمشافہ ملاقاتوں کے علاوہ نیٹ کے ذریعے بھی روابط قائم رہے جب فیس بک نہیں تھی تب ای میلزکے ذریعے اور جب یہ بھی نہیںتھا تب خطوط لکھے جاتے تھے۔ان کے تحریر کردہ خطوط تمام کے تمام میرے پاس کہیں محفوظ ہونگے جو کسی وقت ڈھونڈ کر یکجا کروں گا ۔وہ میرے لئے ڈاکٹر صاحب کا شاندار اثاثہ ہیں ۔1998ء میں میں نے ان کے متعلق لکھا کہ ترکوں سے میری محبت مجھے ڈاکٹر حلیل توقرکی قربت میں لے گئی لیکن پورا سچ یہ ہے کہ ڈاکٹر حلیل توقر کسی بھی قوم میں پیدا ہوتے قابل محبت ہی ہوتے اُن کی جو خوبی مجھے بہت بھلی لگی وہ ان کی معصومیت ،حقیقت پسندی ،انکساری ،کام کی لگن اور سخت محنت وجانفشانی تھی۔
زبان دانی میں ان کا ذوق و شوق متاثر کن تھا انگریزی وترکی کے علاوہ عربی ،فارسی،پنجابی اردوہندی گو یا سب ان کی تختہ مشق تھیں۔ادب بالخصوص اردو ادب سے اُن کا شغف خود اردو زبان و ادب اور زبان دانوں کے لئے قابل فخر سرمایہ تھا۔ان کی جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ ان کی روایتی سی مذہبیت تھی ۔اتا ترک میرے ہیرو تھے اور ہیرو ہیں فکری طور پر میری ہمیشہ یہ تمنا رہی کہ میں ڈاکٹرحلیل توقر کوبھی اسی تسلسل میں دیکھوںیہ آرزوکہیں پوری ہوئی اور کہیں مایوسی میں بھی بدلی ۔اس سے بھی خوش کن یا حیران کن خبر میرے لئے ان کی ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار سے رشتہ داری تھی ابتدائی ملاقاتوں میں اس کی خبر نہ انہوں نے مجھے دی تھی اور نہ ہی ڈاکٹر ذوالفقار صاحب نے۔یہ انکشاف تو مجھ پر جسٹس (ر)ڈاکٹر جاویداقبال صاحب نے کیا ۔ تب مجھے یا د آیا کہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کیوں پنجاب یونیورسٹی میں ان کے سیکورٹی آفیسر بنے کھڑے تھے اور کسی کو ان سے بات کرنے کی اجازت دینے سے بھی گریزاں تھے ۔تب ڈاکٹر حلیل صاحب نے مجھے یہی بتایا تھا کہ یہ میرے استاد محترم ہیں اردو زبان میں نے انہی سے سیکھی ہے ما بعد جب بھی ان کا تذکرہ کرتے سنا تو’’ والدصاحب ‘‘کہتے سنائی دئیے۔
اللہ بخشے ڈاکٹرغلام حسین بھی بڑی دلچسپ شخصیت تھے تحریک پاکستان اور مذہبیت جیسے ان میں کوٹ کوٹ کر بھری گئی تھی۔ان کی خود داری بارہا انہیں خود پسندی تک لے جاتی تھی ۔منہ رکھی شاید ڈاکٹر حلیل توقر کے لئے یا ثمینہ بھابھی کے لئے ہو بلکہ ان ہر دو شخصیات کے لئے تو یقینی طور پر ہوگی لیکن ہمارے جیسے عام عوام یا گنہگاروں کے لئے اس کا کہیں کوئی وجود نہ تھا ۔جلی کٹی سنانے میں وہ کوئی زیادہ مشکل محسوس نہیں کرتے تھے اس رویے کی میرے سامنے بہت سی مثالیں ہیں ۔بہر حال میں ان کے انتقال کی خبر سن کر فوری طور پر ان کے گھر پہنچا تھانہ صرف نماز جنازہ میں شریک ہوا بلکہ اگلے روز بھی ان کے بچوں کے ساتھ بیٹھا رہا تھا حالانکہ وہاں نہ بھابھی ثمینہ تھیں اور نہ ہی ڈاکٹر حلیل توقر۔مجھے اس مضمون میں اپنے ممدوح ڈاکٹر حلیل توقر کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ پیش کرنا چاہیے تھا۔لیکن میں تو ان کی ذات اور رشتہ داروں سے ہی آگے نہیں نکل پایا کیونکہ ابھی تو میں نے یہاں ڈاکٹر صاحب کی والدہ محترمہ کا ذکر بھی کرنا ہے جن سے ڈاکٹر صاحب بے پناہ محبت کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے ان کی وفات پر ڈاکٹر صاحب نے مجھے بڑا پر سوز خط بھی لکھا تھا جس کے جواب میں میں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحب میں تو محض 6 سال کا تھا جب میری والدہ محترمہ مجھ اکیلے کو چھوڑ کر ملکِ عدم جا بسی تھیں اس لئے جب بھی کسی کی ماں مرتی ہے تومجھے ایک نادیدہ کرب محسوس ہوتا ہے گویا میرے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیںکہ ڈاکٹر حلیل توقر کی پیدائش سے قبل ترک اخبارات میں کسی امریکی نجومی کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ ترکی میں اس سال فلاں دن گولڈن بالوں اور نیلی آنکھوں والا ایک بچہ پیدا ہو گااور اس بچے میں مصطفیٰ کمال اتاترک کی روح منتقل ہو جائے گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس دن (یعنی 2اپریل 1968) کے متعلق نجومی نے بتایا تھا ڈاکٹر صاحب کی ولادت اسی دن ہوئی اوپر سے ان کی آنکھیں بھی نیلی ہیںاور بقول ڈاکٹر صاحب بچپن میں ان کے بال بھی بالکل گولڈن رنگ کے تھے اس لئے ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ڈاکٹر صاحب اتا ترک کی فکر کے وارث و علمبردار بن کر اٹھیں گے کیونکہ اتا ترک کی روح ہمہ وقت ان کے تعاقب میں ہے۔ اتاترک کی روح ان کی روایتی مشرقیت کے آڑے آئے گی اور یہ اسی طرح مصطفوی بنیں گے جس طرح وہ ہرصبح اپنے گھر سے نکلتے ہیں اور مغر بیت سے ہمکنار ہوتے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ مشرقی آداب سے دور ہو جائیں جس طرح انڈین فلموں اور گانوں نے ان کے من میں یہ جوت جگائی کہ وہ ’’میں آوارہ ہوں‘‘ یا ’’دوست دوست نہ رہا پیار پیار نہ رہا زندگی ہمیں ترا اعتبار نہ رہا‘‘جیسے گیت گنگناتے ہوئے پر عزم ہوتے رہے کہ ’’بڑا ہو کر ان گانوں کی زبان ضرور سیکھوں گا‘‘ اسی طرح وقت کے ساتھ وہ ہر چیز سیکھتے بلکہ دوسروں کو سکھلاتے چلے جارہے ہیں۔
قدرت کی یہ مہربانی کیا کم ہے کہ انہیں ادب بالخصوص اردو ادب کی خدمت کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے ورنہ والدہ مرحومہ تو انہیں ڈاکٹر بنانے پر تلی بیٹھی تھیں قدرت کی دوسری مہربانی یہ ہوئی ہے کہ انہیں شریک زندگی بنانے کی خاطر جولڑکی پسند آئی وہ بھی پاکستان کی بیٹی اور لاہو ر کی رہائشی تھی ۔یوں اردو اور ترکی کا حسین امتزاج پاک ترک دوستی کا سمبل بن کر ابھرا۔ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں جو تکالیف سہی ہیں اور جو جد وجہد کی ہے ہماری دعا ہے کہ اتاترک کی روح کے سنگم سے وہ دنیائے اردو ادب کے’’ مہاتما‘‘ بن کر ابھریں ۔وہ ترکی اور اردو میں ایسا برج بنیں جس پر اردو اور ترکی زبان بولنے والے فخر کر سکیں ۔۔استنبول کے وہ ’’بابائے اردو‘‘ کہلائیں اب تک وہ جتنا وقیع کام کر چکے ہیں،میرا خیال ہے وہ اس اعزازکے مستحق ہیں ، ان کا یہ علمی و ادبی کام امر ہے اور امر رہے گا۔
تازہ ترین