حال ہی میں ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد طیب اردگان ایک مرتبہ پھر ترک عوام کی خدمت کیلئے پرعزم ہیں۔ ان کی فعال قیادت کی بدولت ترکی میں حقیقی تبدیلی دیکھنے کو ملی اس کا ایک بڑا سبب وہاں کا امام وخطیب سکول سسٹم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں موجود مذاہب میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے اپنی خالص مذہبی روایات میں جدید و قدیم علوم کے حصول پر اتنا زور دیا ہو جتنا کہ اسلام نے دیا ہے۔ یہ بات تو عام فہم ہے کہ جہاں پروقار اور باعزت زندگی گزارنے کیلئے جدید علوم اشد ضروری ہیں، وہاں دینی تعلیمات سے آگاہی بھی لازمی ہے۔ کیونکہ اگر جینا ایک سچائی ہے تو مرنا اس سے بھی بڑی حقیقت ہے۔ اگر روٹی روزی کیلئے تگ و دو ایک بنیادی ضرورت ہے، تو قبر و حشر کی منازل میں کامیابی کیلئے امتحان گاہ بھی دنیا ہی کی زندگی ہے۔ بنیادی طور پر انسانیت سازی کا یہ کام گھریلو تربیت کے علاوہ تعلیمی اداروں کے ہی سپرد ہوتا ہے۔ اس وقت مسلمان ممالک میں جدید اور قدیم علوم کے ماہرین کے درمیان ایک وسیع خلیج دکھائی دیتی ہے جس کے نتیجے میں کئی الجھنیں جنم لیتی ہیں ۔ جدید عصری علوم اور دینی تعلیمات میں ایک خاص توازن پر مبنی نظام تعلیم ہی اس اہم مسئلے کا حل ہے۔ اس کا ایک کامیاب عملی تجربہ ہمیں ترکی کے ’’امام خطیب سکول سسٹم‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔ ترکی میں روز بروز اسلام سے بڑھتی ہوئی محبت کے پس منظر میں اس نظام تعلیم کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ 1924 میں جب خلافت عثمانیہ کو ایک گہری عالمی سازش کے تحت ختم کردیا گیا۔ مصطفیٰ کمال اتا ترک نے برسر اقتدار آکرترکی سے اسلام کی ہر نشانی کو مٹانے کی کوشش کی۔ ترکی کے آئین کو سیکولر بنا دیا گیا خانقاہوں کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا جبکہ مسجدوں کو تالے لگا دیے گئے۔ عربی میں اذان پر پابندی لگا دی گئی دینی مدارس کو بند کردیا گیا۔ ترکی رسم الخط عربی سے ملتا جلتا تھا لیکن اسے’’ انگریزی رومن‘‘ طرز میں تبدیل کردیا گیا۔ اسی موقع پر علامہ اقبالؒ نے بال جبریل کی نظم ’’غزہ شوال یا ہلال عید ‘ میں فرمایا تھا کہ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
ان حالات میں انفرادی طور پر جن عظیم شخصیات نے ترویج اسلام کیلئے کوششیں جاری رکھیں ان میں شیخ محمود آفندی نقشبندی کی روحانی تحریک اور علامہ بدیع الزمان سعید نورسی کی تحریک ’’رسالہ نور‘‘ کے نام سر فہرست ہیں۔ چونکہ ترکی میں ساڑھے چھ سو سال تک خلافت عثمانیہ قائم رہی اس لیے لوگوں کے دلوں سے اسلام کی محبت کو یکسر نکال دینا آسان کام نہ تھا۔ سیکولر لابی نے مذہبی لگاؤ رکھنے والوں کو جدید تعلیم سے محروم کرکے مین سٹریم معاشرے سے الگ کرنے کیلئے 1924 میں’’ گرینڈ ترک اسمبلی‘‘ میں قانون پاس کر کے ’’توحیدی تدریسات‘‘ کے نام سے مذہبی تعلیم کیلئے مدرسے بنا دیئے۔ ان مدارس کا معیار انتہائی پست رکھا گیا جس کی وجہ سے لوگوں کا رجحان اس طرف کم تھا۔ اس طرح اس نظام کو 1930 میں بند ہونا پڑا۔ بیس سال بند رہنے کے بعد 10 اکتوبر 1951 کو ’’امام خطیب سکول ‘‘کے نام سے انہیں دوبارہ شروع کیا گیا۔ بعد ازاں نوے کی دہائی میں انہیں منظم طریقے سے عصری علوم اور دینی تعلیمات پر مبنی نصاب تعلیم سے مزین کردیا گیا۔ 2003 میں جب طیب اردوان وزیر اعظم ترکی بنے تو ان سکولوں کو بین الاقوامی معیار دے دیا گیا ہے۔ ان سکولوں میں جدید اور قدیم علوم کے حسین امتزاج پر مبنی نظام تعلیم رائج کیا۔ ان سکولوں کی تعداد تیس ہزار ہے اور لاکھوں طلبہ ’’اما خطیب سکول سسٹم‘‘ میں ملک اور بیرون ملک سے زیر تعلیم ہیں ۔طیب اردوان بذات خود بھی اسی سکول سسٹم کے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے 1973 میں Istanbul Imam Hatip School سے میٹرک کیا وہاں سے ہی قرآن حفظ کیا، علوم دینیہ حاصل کیے اور تجوید پڑھی۔ اسی نظام تعلیم نے انہیں اسلام سے حقیقی لگاؤ عطا کیا جس کا نتیجہ آج ہم ترکی میں اسلام کی بڑھتی ہوئی محبت اور دینی حمیت و غیرت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔ ابتدا میں ان سکولوں میں نوے فیصد دینی علوم پڑھائے جاتے تھے جبکہ دس فیصد عصری علوم شامل نصاب تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں اس وقت چالیس فیصد دینی علوم جبکہ ساٹھ فیصد عصری علوم پڑھائے جاتے ہیں ۔ ان سکولوں کے تین درجات پرائمری لیول ، مڈل لیول اورکالج لیول ہیں۔ مڈل تک سب کو ایک ہی نصاب پڑھنا ہوتا ہے۔ بعد ازاں جو لوگ امام اور خطیب بننا چاہتے ہیں ان کے نصاب میں دینی علوم کا اضافہ کردیا جاتا ہے اور جو طلبہ میڈیکل، انجینئرنگ، آئی ٹی یا کسی بھی فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں تو انہیں اسی لحاظ سے مضامین کے چناؤ میں آزادی ہوتی ہے۔ آٹھ سال میں ہر طالب علم کو عصری علوم کے ساتھ ساتھ قرآن کی تجوید کے ساتھ تلاوت، ترجمہ قرآن، احادیث، عقائد ، فقہ، سیرت رسولﷺ اور عربی زبان لازمی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ یہ طلبہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیک وقت مسجدمیں امام و خطیب، ہسپتال میں ڈاکٹر، عدالت میں جج، اور طیب اردگان کی طرح کرسی اقتدار پر صدر اور وزیر اعظم بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی تناظر میں اگر پاکستان کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ نظام تعلیم کے حوالے سے ہمارے حالات بھی ترکی سے ملتے جلتے ہیں۔لہٰذا ایسے تعلیمی اقدامات کی اشد ضرورت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں نجی دینی مدارس کا ایک ناقابل فراموش کردار ہے۔ جدید و قدیم علوم کے امتزاج پر مبنی بھی نجی سطح پر ایسی کئی کوششیں ہوئیں جو کامیاب بھی ہیں لیکن ان میں سے بھی اکثر محدود ہونے کے ساتھ ساتھ تجارتی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری سطح پر اس کام کو شروع کیا جائے۔ موجودہ دینی اداروں کے تنظیمی بورڈز سے مشارت کے ساتھ مضبوط لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ آج دہشت گردی ، فرقہ واریت اور بے جا مذہبی جنونیت کے لیبل کو ختم کر کے اسلام کے رخ زیبا کو آشکارہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی رواداری اور باہمی برداشت کا فروغ وقت کی ضرورت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے بہر کیف یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی جس مصیبت میں پوری قوم پریشان ہے اس کے اسباب میں سے بڑی وجہ ہماری دینی تعلیم کے حوالے سے حکومتی سطح پر لاپرواہی ہے۔ کچھ دینی مدارس نے اس حکومتی لاپروائی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں کی ایسی کھیپ تیار کردی جو پوری قوم کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب ترکی کے مذہبی امور کے وزیر پاکستان کے دورے پرتھے تو وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے بھی پاکستان میں ترکی طرز کا ’’امام و خطیب سکول سسٹم‘‘ شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا لیکن نہ جانے کب یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو!!!
.