• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنام سینیٹر سراج الحق ... تحریر:ذوالفقار علی … لندن

جماعت سلامی اپنے قیام سے لے کر آج تک ایک سنہرا اور شاندار، سیاسی اور جرأت مندانہ کردار کیلئے مشہور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت اسلامی کے امیر، امراء کارکنان ، ارکان یا نچلی قیادت خامیوں اور کوتاہیوں سے مبرا ہے سابق صدر جنرل ایوب خان کے آمرانہ دور میں مولانا مودودیؒ نے جہادی اور جرأت مندانہ سیاسی کردار کا آغاز کیا تھا۔ مولانا مودودیؒ اپنے دور امارت میں کبھی آمروں کے سامنے نہ جھکے، اسلام کو اس کے اصل روح میں مولانا مرحوم نے پیش کیا اور اس کی صحیح تشریح بھی کی۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکات نے سید مودودیؒ مرحوم کے افکار و نظریات سے فکری غذا حاصل کرکے اسلامی انقلاب کی منزل پائی مولانا مودودیؒ عمر بھر سیاست میں اصولوں پر سختی سے کاربند رہے۔ مولانا مودودیؒ کی سیاسی پالیسیاں غیر مبہم تھی انہوں نے کھل کر اور ڈنکے کی چوٹ پر آمریت اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔قادیانی مسئلہ میں انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی مگر وہ حق پر ثابت قدم رہے مولانا مرحوم نے دو رنگے پن سے گریز کیا وہ عمر بھر صداقت پر ڈٹے رہے۔ میاں طفیل محمد امیر بنے مگر وہ قوت فیصلہ سے قاصر رہے میاں طفیل کے دور میں جماعت اسلامی کا سیاسی کردار محدود اور کونے زاوئیے (Corner Angle) کی حیثیت رکھتا تھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے حلف امارت اٹھایا تو جماعت اسلامی کو نئی جہتوں پر ڈال دیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی پالیسیاں عوامی تھیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے دروازے ہر کسی کیلئے کھول دیئے انہوں نے بانی جماعت کے طرز سیاست کو مزید تقویت دی اور مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کی عددی برتری اور سیاسی عوامی طاقت کو مزید فروغ دیا۔ ان کا دور پاکستان کی مذہبی سیاست میں جرأت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے اپنے دور امارت میں مسلسل رابطہ عوام مہم کے ذریعے جماعت اسلامی کو ملک کے کونے کونے میں متعارف کرایا سید منور حسن صاحب نے منصب امارت سنبھالی تو وہ بھی اپنے سابقین کے خطوط پر جماعت کو چلاتے رہے۔ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر بات کی اور جرأت سے حکم حق بلند کیا۔ سید منور حسن صاحب ایک حق گو اور بے باک امیر تھے تاہم ان کی مزاج میں قدرے تلخی کا عنصر موجود تھا ان کی حد سے زیادہ صداقت، حق گوئی اور جرأت اظہار ملک کے بعض حلقوں کو راس نہ آئی، خود جماعت اسلامی جیسی اصول پرست جماعت بھی ان کی اس ادا کی متحمل نہ ہوسکی۔ بہرحال بعض حوالوں سے سید صاحب مزید امیر نہ بن سکے۔ سراج الحق کی سیاسی ادائیں، اپنے سابقین سے کچھ مختلف نہیں۔ سراج الحق ایک فقیر مزاج سیاسی شخصیت اور مذہبی جماعت کے امیر ہیں تاہم سراج الحق صاحب کے دور میں جماعت اسلامی کی پالیسی مبہم ہے۔ سراج الحق صاحب موجودہ سیاسی اشرافیہ، نواز شریف، زرداری وغیرہ کو ایک طرف سیاسی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں دوسری طرف ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی سیاسی حمایت کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ساتھ شریک اقتدار ہیں تو مرکز میں نواز شریف کو ووٹ دیتے ہیں، اگر پارلیمنٹ میں ان کی مخالفت کرتا بھی ہے تو کشمیر میں ان کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کی ظالمانہ اشرافیہ کے ظلم و ناانصافی سے متعلق سراج الحق صاحب کے لب و لہجے میں جارحیت نہیں ہے۔ اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ سیاست اور سیاسی سفر میں تہذیب، اصول اور متانت کے ساتھ چلنا چاہئے جو کہ سیاست اور سیاسی نظام میں اصولی طریقہ ہے میں نہایت ادب سے سراج الحق صاحب جماعت اسلامی کی موجودہ سیاسی پالیسی سے اختلاف رکھتا ہوں کہ محترم سراج الحق صاحب ظلم و ناانصافی کے خلاف کھل کر کیوں نہیں آتے جب آپ جلسوں میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کی سیاسی، معاشی زیادتیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو یہی بیباکی اور حق گوئی کو پارلیمنٹ اور ان اشرافیہ کے سامنے کھل کر بھی اپنایا جائے، میں نہیں سمجھتا کہ جماعت اسلامی یا محترم امیر جماعت سراج الحق کی سیاسی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں اگر ان کا اتحاد تحریک انصاف کے ساتھ ہے تو ن لیگ کی حمایت کیوں کرتے ہیں اور ان کے لئے نرم گوشہ کیوں رکھتے ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کا پاکستان پیپلز پارٹی سے نظریاتی اختلاف ہے تو خورشید شاہ یا زرداری سے سیاسی مفاہمت کا راستہ کیوں اپناتے ہیں سراج الحق اگر سیاسی اشرافیہ کے معاشی سیاسی زیادتیوں کے خلاف بولتا ہے تو پھر ایوانوں میں ان کے ساتھ نرم رویہ کیوں اختیار کرتا ہے نظریاتی مخالفوں سے اصولی مفاہمت یا بات چیت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ موجودہ دور میں جماعت اسلامی کی سیاسی پالیسیاں باطن میں کچھ اور ظاہر میں کچھ اور ہیں جماعت اسلامی کی موجودہ سیاست کیوں تضادات کا شکار ہے جماعت اسلامی اپنی موجودہ سیاسی پالیسی کی اصولی وضاحت کرے تو سنجیدہ اور مخالف حلقوں میں شکوک و شبہات ختم ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کا پاکستانی سیاست کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی بددیانتی، غیر مساویانہ پالیسیوں پر ظاہری اور باطنی دونوںسطح پر نقطہ نظر ایک ہے اگرچہ عمران خان کی سیاسی ادائیں اور طرز عمل غیر سنجیدہ اور سیاسی ناپختگی پر مبنی ہیں جماعت اسلامی ایک اصولی، نظریاتی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے اصول جرأت مندانہ اور جاندار ہیں پھر سراج الحق صاحب کو غیر مبہم نقطہ نظر اپنانا چاہئے سراج الحق صاحب ایک بالغ نظر، تجربہ کار، منجھے ہوئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدان، ممتاز پارلیمنٹرین اور مہذب، حق گو سیاسی، مذہبی شخصیت ہیں۔ ان کی فقیر مزاجی، درویشانہ انداز کی مخالفین بھی تعریف کرتے ہیں اخبارات کے رپورٹوں اور بیانات، جلسوں، تصویروں سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ سراج الحق صاحب ایک دفعہ پھر جمعیت علماء اسلام سے سیاسی اتحاد پر غور کر رہے ہیں۔ میری ناقص رائے کے مطابق یہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اور ان کی شوریٰ کی سنگین سیاسی غلطی ہوگی۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی امیر مشتاق احمد خان نے رابطہ عوامی مہم کے ذریعے خیبر پختونخوا کی حد تک جماعت اسلامی کو خاصا مضبوط اور منظم کیاہے۔ خیبر پختونخوا میں مشتاق احمد خان کی سربراہی میں جماعت اسلامی بہت مقبول ہو رہی ہے اس لئے جماعتی قیادت کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت بشمول جمعیت علماء اسلام، پاکستان تحریک انصاف سے خاص کر انتخابی سیاسی اتحاد سے گریز کرے بلکہ اس سے دور رہے تاکہ جماعت اسلامی کا الگ سیاسی تشخص قائم رہے۔ اس سے جماعت اسلامی اپنی الگ سیاسی انفرادی مقبولیت، پہچان اور عوامی پذیرائی کا اندازہ کرسکتی ہے۔ خود جماعت اسلامی کی تنظیم اور قیادت کو اپنی محنت اور صحیح خالص عوامی مقبولیت کا پتہ چل جائے گا جماعت اسلامی اپنی الگ سیاسی تشخص اور پوزیشن (حالات) کا اندازہ کرلے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ تحریک انصاف سے بعد میں حکومتی اتحاد میں کوئی مضائقہ نہیں یہ مجھ خاکسار کی ناقص رائے ہے۔ 2002ء میں جمعیت علماء اسلام کے ساتھ انتخابی اور سیاسی اتحاد نے جماعت اسلامی کو نقصان پہنچایا۔ جماعت اسلامی کی انفرادی حیثیت معدوم ہوچکی تھی۔ مخلوط حکومتوں میں خواہ تحریک انصاف ہو یا جمعیت علمائے اسلام دونوں کے ادوار میں جماعت اسلامی کے وزراء کی اچھی کارکردگی کا کریڈٹ تحریک انصاف یا جمعیت علمائے اسلام کے وزراء کو جاتا ہے یا تھا حالانکہ ماضی میں حکومتوں میں جمعیت علمائے اسلام کی کارکردگی صحت مند نہ تھی۔ آج بھی خیبر پختونخوا کی مخلوط حکومت میں اچھی کارکردگی کا کریڈٹ تحریک انصاف لیتی ہے، حالانکہ جماعت اسلامی کی کارکردگی مثالی ہے۔ جماعت اسلامی کسی بھی سیاسی اتحاد سے گریز کرے۔

.
تازہ ترین