• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کائنات کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں باعث ہیں۔ جنگیں چاہے کتنے ہی مثبت جذبوں سے لڑی جائیں ان میں گنہگار ہی نہیں بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔ اس لیے انسانیت سے محبت کرنے والا کوئی بھی شخص ان کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اجتماعی انسانی شعور صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے آج ’جیو اور جینے دو‘ کے اس مقام پر پہنچا ہے، جمہوریت، برداشت، رواداری انسانی حقوق اور آزادیاں جس کے ثمرات ہیں اس شعوری ترقی و ارتقا کے باوجود انسانیت کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ ظلم و جبر کی قوتوں نے ہنوز اپنی ہار نہیں مانی بلکہ جاہلی طاقتیں چاہتی ہیں کہ وہ جبرو دہشت کے ذریعے عصرِ حاضر کی شعوری ترقی کو ملیامیٹ کر دیں تاکہ انہیں اپنے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے کی کھلی چھوٹ ملی رہے۔
آمریت کے گھنائو نے جرائم کی تازہ مثال ’’الجموریہ العریبیہ السوریہ‘‘ نامی مملکت ہے جہاں بسنے والے لاکھوں کروڑوں عامۃ الناس بعث پارٹی کے آہنی شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔ اگرچہ بشارالاسد کے مظالم کی تاریخ ڈیڑھ دہائی پر محیط ہے لیکن اس کے والد حافظ الاسد نے ربع صدی سے بھی زیادہ شامی عوام پر اپنی بدترین آمریت کے پنجے گاڑے رکھے۔ 1963ء سے تاحال بدنصیب شامی عوام پر مسلط ظلم و جبر کی سیاہ رات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ حالیہ برسوں میں عرب عوام نے آمریتوں کے خلاف جو انگڑائی لی ہے شامی عوام کیلئے یہ انگڑائی بھی پیام موت بن کر آگ اور خون میں ڈھل گئی ہے۔ ظلم کی چکی میں پسنے والے باغی تو شاید اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر مبالغہ سے کام لیتے ہوں گے غیر جانبدار اداروں حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس ملاحظہ فرمالیں۔ 2011سے اب تک ایک لاکھ دس ہزار شامی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، 28ہزار لاپتہ ہیں، 62لاکھ شامی بے گھر ہو چکے ہیں، بڑی تعداد میں لوگ لبنان، اردن اور ترکی میں ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بہت بڑی تعداد کو یورپ نے پناہ دی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک میں نقل مکانی کرنے والے شامی باشندوں کی تعداد بیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ایک موقع پر تو انسانیت کی تمام حدود ہی پامال کر دی گئیں جب دمشق کے مضافات میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے پر کیمیائی ہتھیار داغ دیئے گئے جن میں 1429 انسان ابدی نیند سو گئے۔ مرنے والوں میں 426بچے بھی شامل تھے۔ اس تناظر میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کا پچھلے برس21اگست کے واقعہ کو اکیسویں صدی کا بدترین سانحہ قرار دیتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’امریکی کانگریس کی منظوری کے بعد کسی وقت بھی شام پر حملہ کر دیں گے اقوام متحدہ کی منظوری ضروری نہیں‘‘ خواہ کتنا تلخ سہی لیکن قابل فہم ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں کیمیکل ہتھیار سیرن کا استعمال ہوا ہے، ہمارے پاس شواہد موجود ہیں۔ دوسری طرف روس نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال بارے شام کے خلاف امریکی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کو کیمیکل حملے ثابت کرنے کیلئے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
ہماری نظر میں غیر جانبداری کا تقاضا یہی ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کر لی جائے کیونکہ شامی حکومت کا استدلال ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال انہوں نے نہیں بلکہ باغیوں نے کیا ہے جبکہ باغیوں کا موقف ہے کہ مہلک بارود ان کے زیر قبضہ علاقے میں پھینکا گیا ہے اموات ہمارے علاقے میں ہوئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیٹلائٹ سے ملنے والے شواہد سے پتہ چلا ہے پہلے کیمیائی حملے کی رپورٹ آنے سے 90 منٹ قبل حکومتی زیر کنٹرول علاقے سے راکٹ داغے گئے تھے۔ سابقہ واقعات کو سامنے رکھا جائے تو اس نوع کی اطلاعات ماقبل موجود تھیں کہ شامی حکومت کے پاس وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی کسی حد تک موجودگی پائی جاتی ہے جنہیں وہ ناگزیر حالات میں استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک برس قبل امریکی صدر نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو امریکا کیلئے سرخ لکیر قرار دیتے ہوئے شامی حکومت کو اس کے نتائج سے خبردار کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے بھی اس نوع کی وارننگ دی تھی۔ سلامتی کونسل میں شام کے خلاف مذمتی قرارداد کو روس اور چین نے ویٹو کر دیا تھا لیکن فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، اسپین، کینیڈا اور آسٹریلیا نے شامی سفارت کاروں کو اپنے ملکوں سے نکال دیا تھا۔ ترکی اور شام نے ایک دوسرے کے خلاف فضائی پابندیاں لگا دی تھیں۔ پچھلے برس جو ہوا سو ہوا اس سال پھر کیمیکل گیسز کا استعمال کیا گیا ہے جسے غیرجانبدار طبقات نے بھی تسلیم کیا ہے اس کے ردعمل میں امریکا نے دنیا کے سب سے بھاری نان کیمیکلز بموں کا شام میں استعمال کیا ہے جو ایک لحاظ سے صدر بشارالاسد اور ان کے پشت پناہ کو وارننگ ہے۔
سعودی عرب دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی محبتوں کا مرکز ہے۔ روسی صدر نے جو دھمکی دی تھی، تمام مسلم قیادتوں کو بشمول ایران اس کی مذمت کرنی چاہیے تھی لیکن یہاں دردناک صورتحال یہ ہے کہ مظلومین کے غم میں رونے والے آج خود ظالموں کے ساتھ مل کر مظلومین پر تیر (میزائل) چلا رہے ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ حزب اللہ والے لبنان سے نکل کر شام میں مظلومین کا شکار کرنے آئے ہوئے ہیں۔ قابل افسوس بات ہے کہ یہاں حیلوں بہانوں سے ڈھکے چھپے الفاظ یا واضح اشاروں سے عالمِ اسلام کی سب سے محترم شخصیت خادمِ حرمین شریفین کے خلاف منافرت پھیلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ وہ نصف صدی پر محیط جبر کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں سے عوام کو ابدی نیند سلانے والوں کے خلاف حق سچ کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں۔ خدارا اسے مسلکی تنازع بنانے سے گریز کریں۔ امریکی صدر یہ کیوں کہتے ہیں کہ شام کے خلاف فوجیں اتارے بغیر محدود کارروائی ہو گی۔ ترک صدر کا امریکا سے یہ مطالبہ ہے کہ سابق یوگوسلاویہ کے خلاف 1999ء میں ہونے والے نیٹو حملے کی طرز پر شام پر حملے کرو۔ تب جس طرح اقوام متحدہ کی کسی قرار داد کے بغیر نیٹو نے کوسوو کے عوام کی حفاظت کیلئے 70دنوں تک فضائی حملے جاری رکھے تھے ترک صدر ایردوان چاہتے ہیں کہ امریکہ شام کے خلاف اسی طرز پر حملے کرے اور تب تک کرے جب تک بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ حالانکہ ہماری نظر میں شام سے داعش کا فوری خاتمہ بشار الاسد کے خاتمے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ پراکسیاں بنانے کی بجائے ان دونوں برائیوں کا فوری خاتمہ کرنے پر ایکا کر لیں بلکہ دنیا کی تمام مہذب اقوام کو اس سلسلے میں ہم آہنگ ہو جانا چاہئے۔

.
تازہ ترین