پشاور میں بیٹھ کر ان دنوں مختلف چیزوں نے دل و دماغ کو جکڑ رکھا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ صرف میں ہی ذہنی تکلیف میں ہوں لیکن جہاں بھی جاتا ہوں یہی موضوعات زیر بحث ہیں۔ ان میں سب سے پہلے مسئلہ بچوں کی تعلیم ہے۔ تعلیمی سال کا نیا سیشن شروع ہونا ہے والدین ہیں کہ کتابوں، کاپیوں، یونیفارم کی خریداری سے لیکر فیسوں میں بلاجواز اور ہوشربا اضافے کے باوجود ان کی ادائیگی پر مجبور ہیں کچھ اسکول تو ایسے ہیں۔ جنہوں نے ذرا نام کیا کما لیا ہے آپ ان سے فیس کے مسئلے پر بات بھی نہیں کر سکتے۔ فوری طور پر آپ کے بچے کا اسکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ ہاتھ میں تھما کر گیٹ کا راستہ دکھا دیتے ہیں وہ تو شکر ہے میں ان ’’بے وقوف‘‘ والدین میں سے نہیں۔ جو خواہ مخواہ کی بحث کرتے ہوں اور نئی فیسیں ادا نہ کرنے کے جواز ڈھونڈتے ہوں۔ میں نے تو فیس کی جو چٹ ملی اس پر یہ بھی نہ دیکھا کہ میری بیٹی کی فیس میں آخر کار اسکول کی ڈویلپمنٹ کے چار ہزار روپے جو ڈالے گئے ہیں، میں انہیں کیوں ادا کروں اور کیا اسکول میں نئی کلاس کی تعمیر یا لیٹرین بنوانا والدین کا کام ہے اس کا بھی نہ سوچا اور اس پر بھی وقت ضائع نہیں کیا کہ آخر متفرق چارجز کے چودہ سو روپے کس کھاتے میں بچوں سے وصول کئے جا رہے ہیں۔ ایسی کسی بات پر نہیں سوچا اور از خود ہی ’’اچھا بچہ‘‘ بن کر بیٹی کی فیس جمع کرا دی۔ لوگ کہتے ہیں کہ والدین ان دنوں جس کرب سے گزرتے ہیں اس کا احساس صرف وہی کرسکتے ہیں۔ یہ والدین بھی نا۔۔۔ بات بات پر اڑ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں جب تنخواہ میں ایٹ سورس ٹیکس دینے کے بعد یہ بجلی و گیس کے ہر یونٹ، پٹرول وسی این جی کے ہر لیٹر، بازار میں خریدی گئی ہر چیز سے لیکر ریسٹورنٹ میں کھانے تک پر دوبارہ ٹیکس کیوں دیں۔ اور جب دے بھی دیا تو اس کے بدلے میں ریاست تعلیم، صحت، تحفظ، بجلی، گیس اور دیگر سہولتیں بھی تو فراہم کرے۔ اور چلو وہ بھی اگر ٹیکس دینے کے باوجود خود پرائیویٹ طور پر ارینج کرتے ہیں تو کم ازکم ٹیکس دہندہ ہونے کے اعزاز کے طور پر عزت و احترام کا مقام ہی دیا جائے۔ کیا سادہ لوگ ہیں، عزت ہوتی ارباب بست و کشاد کے پاس تو ضرور دیتے۔ لیکن وہ تو خود اس وقت عدالتوں کی زد پر ہیں۔ عدالتوں کی زد والوں کو تو چھوڑیں۔ عزت تو وہ بھی نہیں دے رہے۔ جو چین گدھے ایکسپورٹ کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ گدھوں سے یاد آیا، اس معاملے کو حتمی شکل دینے کے لئے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اپنے ساتھ وزیروں اور انتظامی سیکرٹریوں کی ایک فوج بھی لے کر چین گئے تھے حالانکہ انہیں اصل پروڈکٹ یعنی گدھوں کو بھی ساتھ لے جانا چاہئے تھا۔ جو وہاں بیچے جانے ہیں۔ اب چینیوں کو ضرورت گدھوں کی ہو اور آپ ان لوگوں کو لے گئے؟ ہمارا کیا کام۔ لوگوں نے ووٹ دئیے ہیں تو جو چاہے کریں۔
دوسرا درپیش مسئلہ جو ہمیں مسلسل تنگ کر رہا ہے وہ ہے بجٹ سے پہلے بے چارے شہر پشاور میں خواہ مخواہ کے جلسے جلوسوں کے بازار کا گرم ہونا۔ یہ شہر بھی بڑا مظلوم ہے روزانہ منٹو کے ڈرامے کی طوائف کی طرح دور و نزدیک سے وزرا اور بیورو کریٹ سے لے کر تمام اداروں کے لوگ اس شہر میں آکر دل بہلاتے ہیں اور سالوں تک تماشا دیکھنے کے باوجود بھی طوائف کے کوٹھے کی مانند اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔ اور ہر ویک اینڈ پر اسے چھوڑ کر اپنے آبائی حلقوں کا رخ کرتے ہیں، پشاور کی سڑکیں روزانہ بند رہتی ہیں اس کے باسی پورے صوبے سے آئے ہوئے لوگوں کو حیران و پریشان دیکھتے رہتے ہیں کہ جب دیگر علاقوں سے آئے ہوئے حکمران اس شہر کے بارے میں نہیں سوچتے تو پھر یہ پورے صوبے کے لوگ یہاں احتجاج کے لئے آکر لوگوں کا خون کیوں جلاتے ہیں۔ مقامی باسی جن میں ایک میں بھی ہوں۔ یہ سوال کرتے ہیں کہ سردار مہتاب، پیر صابر شاہ، آفتاب شیر پائو، اکرم درانی، امیر حیدر ہوتی اور اب پرویز خٹک (بطور وزیراعلیٰ) ان کے شہر کے ساتھ کیا کر کے گئے ہیں اور کر رہے ہیں، حکومت کرنے آتے ہیں، یہاں بڑے بڑے گھر بنا کر رہتے ہیں لیکن آباد صرف اپنے حلقوں کو کرتے ہیں۔ ویسے اس شہر کے ساتھ یوں ہی ہونا چاہئے اس نے کس کس جماعت کو اپنا پورا مینڈیٹ نہیں دیا حالیہ دہائیوں میں اس نے دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے، پھر اے این پی و پیپلز پارٹی کو بڑا مینڈیٹ دیا اور اب تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کے اپنے چاروں اور صوبائی اسمبلی کے گیارہ میں سے دس حلقے تک دے دئیے لیکن کسی جماعت نے وزارت اعلیٰ اس شہر کو نہیں دی۔ کہتے ہیں کہ جب تک وزارت اعلیٰ اس کے حصے میں نہیں آئے گی، یہ یونہی اجنبیوں اور مسافروں کا بوجھ سہار کر خود اجڑتا ہی رہے گا۔ اس کے باسیوں کے ساتھ تو اس سے بھی برا ہونا چاہئے۔ چلیں یہ تو کچھ جملہ ہائے معترضہ تھے لیکن شہر میں آج کل جلوسوں سے بننے والے رش کی بدولت پشاوریوں کا گھروں سے نکلنا دو بھر ہو گیا ہے۔
میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کزن اور اس کے ساتھ شراکت میں کاروبار کرنے والے شخص کا رونا دیکھ کر اپنا غم بھول گیا۔ دونوں چاولوں کی برآمد اور پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کام بھی کرتے ہیں مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔ بہت برا ہوا، عدالت نے حکمرانوں کو چھوڑ دیا۔ میں نے کہا آپ کو کیا تکلیف ہے۔ کہنے لگے پہلے بیرون ملک سامان بیچتے تھے تو اس کی رقوم کی ادائیگی کا طریقہ کار آسان تھا لیکن اب حکومت نے ایسی مشکل بنا دی ہے کہ کاروبار ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے کہا پھر پراپرٹی کا کاروبار ہی کرتے رہو۔ تو لاچارگی کی تصویر بن کر کہنے لگے حکومت نے جو نئے ٹیکس لگائے ہیں اس میں جائیداد خریدنے اور بیچنے والے سے زیادہ فائدے میں حکومت رہتی ہے۔ ایک ایک پلاٹ کی خرید و فروخت پرحکومت کو بیس بیس لاکھ روپے ٹیکس کی مد میں ملتے ہیں جس کی وجہ سے یہ واحد کاروبار بھی آخری سسکیاں لے رہا ہے۔ اور ضرورت ہونے کے باوجود بھی لوگوں کو پراپرٹی کے لئے اچھے گاہک نہیں مل رہے۔ میں نے کہا ملک چلانا ہے تو ٹیکس تو دینا ہی پڑے گا۔ کہنے لگے آپ نے وہی شاعر والی بات کہہ دی کہ ’’اگر وہ پوچھ لے ہم سے کہو کس بات کا غم ہے... تو پھر کس بات کا غم ہے اگر وہ پوچھ لے ہم سے‘‘ اگر ملک چلتا تو غم کس بات کا تھا یہی تو مسئلہ ہے کہ ملک بھی نہیں چل رہا۔ پینے کے پانی سے لے کر بجلی، گیس اور صحت و تعلیم تک ریاست کوئی سہولت نہیں دیتی۔ شہری یہ سہولتیں خود خریدتے ہیں اور اتنی کچھ عزت نہیں کہ سپاہی سے ہی جان چھڑا سکیں۔ ایک ایک سودے میں حکومت کو لاکھوں روپے کا ٹیکس دیتے ہیں لیکن اپنی اور ڈاکوئوں کی ایک ہی جتنی عزت ہے کہ ’’اصلاح زدہ پولیس‘‘ بھی واپس اپنی اوقات پر آ چکی ہے دس دس دن ایک ایک ملزم کو اس لئے ایف آئی آر درج کئے بغیر رکھا جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو عدالت میں پیش کرنا پڑ جائے۔ میں ان کے مسئلوں کو ناقابل حل جان کر ان کو خدا حافظ کہہ کر اپنی راہ چل پڑا کہ میں کوئی بے وقوف ہوں۔ جو ان باتوں کو سوچ کر کڑھتا رہتا۔
.