• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے بابااسکرپٹ کئی بار کہہ چکے کہ ڈان لیکس حکومت کےگلے کی پھانسی بنےگی بلکہ آنےوالے وقتوںمیں بہت سارے معاملات ابھریں اور سامنے آئینگے کہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور جوں جوں وقت گزرے گا معاملات نہ صرف کنٹرول سے باہر ہوںگے بلکہ ملک میں افراتفری بڑھے گی اور ساری سیاسی جماعتیں استعفےکے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کو بھی تھمنے نہیں دیں گی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے بھی فیصلہ کرلیاہے کہ وہ نہ ہی نرمی اختیار کریںگے اور نہ ہی استعفیٰ دیںگے۔
لیکن دو سر ی طر ف مجھےپاکستان پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے ایک نجی محفل میں کہا ہے کہ عمران خان کتنے جلسے جلو س کھیل لیں وہ وزیر اعظم کو گھر نہیں بھیج سکتے البتہ تین طریقے ایسے ہیں جس سے وزیراعظم کے پا س لڑائی کا کوئی آپشن نہیں رہتا اور انہیں جانا ہی پڑے گا ، پہلا آپشن یہ ہے کہ عمران خان آصف زرداری سے ہاتھ ملا لیں اور مل کر وزیر اعظم کو آسانی سے گھر بھیج سکتےہیں، میں نے ان سے پوچھا وہ کیسے توپاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہاکہ ہماری پارٹی کو کمزور اور مردہ سمجھنے والے یہ نہیںجانتے کہ صوبہ سندھ میںنہ صرف ہماری حکومت ہےبلکہ قومی اسمبلی میں بھی ہمارے ارکان کی اچھی بھلی تعدادہے اور اگر پی ٹی آئی کے ارکان بھی مل جائیں توپارلیمنٹ بے وقعت اور صوبائی اسمبلی ختم ہوکر آئندہ الیکشن کےلیے حالات بنائے جاسکتے ہیں اور پھر اسی اتحادکے تحت مسلم لیگ(ن) کو آئندہ الیکشن میں بھی محدود کیاجاسکتا ہے ، میں نے پیپلزپارٹی کے لیڈرسے کہاکہ یہ تو ناممکن نظر آتا ہے کہ عمران خان آصف زرداری سے ہاتھ ملائیں پیپلزپارٹی کے رہنما کچھ دیر خاموش رہے اور کہنے لگے سیاست میں دروازے اور آپشن کھلے رکھنے پڑتےہیں، میں نے ان سے دوسرا طریقہ جاننا چاہا توانہوںنے کہاکہ یہ مشکل کام ہے لیکن ہوسکتا ہے، کہ مسلم لیگ(ن) کے اندر اس وقت کچھ وزرا اور ارکان اسمبلی میں اپنی قیادت کے خلاف کانا پھوسی کررہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ساٹھ ستر ارکان کا ایک پریشر گروپ بنا کر قیادت کو مجبور کیا جائے اور نیا لیڈر آف ہاؤس لایا جائے لیکن یہ مشکل اس لیےہےکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس ایسے بہت سے طریقے ہیں جس کے ذریعے وہ باغی ارکان کو قابو کرسکتے ہیں، تیسرا طریقہ جے آئی ٹی کے ذریعے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا ہے جس کا حکم سپریم کورٹ نے دے رکھا ہے ، پاکستان پیپلزپارٹی کے لیڈر کا کہنا تھا ہماری پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ جے آئی ٹی کے ذریعے وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ کرنے میں بہت ساری مشکلات پیش آئیںگی بلکہ ہماری پارٹی کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی کے ذریعے وزیر اعظم کو فارغ کرنا ناممکن ہے، کیونکہ 60روز بہت زیادہ ہوتےہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے پاس اس حوالےسے بھی بہت سارے طریقے ہیں کہ وہ اپنے خلاف فیصلے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور یقیناً اس حوالے سے حکمرانوں نے حکمت عملی بھی بنا لی ہوگی اور اگر فیصلہ وزیر اعظم کے خلاف آ بھی گیا تو کیا وزیر ا عظم اس فیصلے کو مانتے ہوئےوزیر اعظم ہاؤس خالی کرکے چل دیںگے تویہ بھی سب کی خام خیالی ہے۔ ہاں البتہ اس خلاف فیصلے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار اہم ہوگا کہ وہ اپنا وزن کس طرح کس پلڑے میں ڈالتے ہیں ورنہ فیصلے کے بعد بھی کھینچا تانی ہوتی رہے گی میں نے کہاکہ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خلاف فیصلے کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جائیںگے تو اس سیاسی رہنما کا کہنا تھا کہ اوکاڑہ میں جلسے سے خطاب کے دوران وزیر اعظم کی باڈی لینگویج بڑی خطرناک تھی ، و زیر ا عظم جو پانا ما لیکس کے فیصلے کے بعد بیک فٹ پر نظر آ تے تھے اس جلسے میں انکی با ڈی لینگو ج یکسر تبدیل نظر آتی ہے اور پھر ڈان لیکس میں حکومت کا ریسپانس بھی ان کے اعتماد اور ڈٹ جانے کی پالیسی کا اشارہ دیتاہے ، لیکن جوںجوں دن گزریں گے حالات سب کےلیے مشکل ترین ہوتےجائیںگے اور ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اب دیکھنا ہے کہ کو نسا طر یقہ کس کےلیے فا ئدہ مند اور کس کےلیے نقصان دہ ثا بت ہو تا ہے۔

.
تازہ ترین