• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جھوٹ بولنے کی تاریخ تو انسان کے ساتھ ہی اس زمین پر اتری اور شیطان کا اولین ہتھیار خاص بن گئی۔ انسان کی سرشت میں شامل اس منفی صلاحیت کے بارے میں تو آپ بخوبی جانتے ہیںاس کے بار ے میں آج تھوڑا بہت جان لیتے ہیں۔ پہلے اس کی اقسام پیش خدمت ہیں۔ ماہرین نے اسکی سات اقسام بیان کی ہیں۔ پہلی قسم ہے سیاہ جھوٹ۔ جس میں صرف خود کو مصیبت سے مکمل طور پر بچانا مقصود ہوتا ہے چاہے اس میں دوسرا بچے یا نہ بچے۔ دوسری ہے سرخ جھوٹ۔ یہ دوسروں سے بدلہ لینے پر مبنی بیانیہ ہوتا ہے۔ اس میں جھوٹا شخص خود کو بھی اور دوسرے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ تیسری ہے سرمئی جھوٹ۔ اس میں جھوٹا شخص کچھ اپنا فائدہ حاصل کرتا ہے اور کچھ دوسرے کا فائدہ خود بخود ہوجاتا ہے۔ چوتھی قسم ہے سفید جھوٹ۔ یہ ہمارے سماجی نظام کا لازمی حصہ بن چکا ہے جس میں کسی کو جذباتی طور پر درد دینے سے بچانے کیلئے بولتے ہیں۔ تشدد اور جارحانہ رویہ سے بچنے کیلئے ہر کوئی سفید جھوٹ بولتا ہے۔ مثلاً نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے برے لباس کی تعریف کرنا پڑتی ہے کہ وہ بہت اچھا ہے۔ پانچویں قسم ہے مفاد پر مبنی جھوٹ۔ اس میں ڈاکٹر قریب المرگ مریضوں اور ان کے لواحقین کو مریض کی حقیقی حالت سے آگاہ نہیں کرتے۔ چھٹی قسم ہے کینہ پرور جھوٹ۔ یہ جھوٹ کی خطرناک شکل ہے جس میں جھوٹا شخص ذاتی مفاد کیلئے معاملات کو مخفی رکھتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ ساتویں قسم ہے دغا بازی پر مبنی جھوٹ۔ اس قسم میں جھوٹا شخص افواہ سازی کا کارخانہ بن جاتا ہے۔ جس میں وہ اپنے شکار کے کردار اور ساکھ سمیت کو نشانے پر لے لیتا ہے جس کے نتائج بہت ہی خوفناک ثابت ہوتے ہیں۔ اب ہم جھوٹے افراد کے بارے میں جانتے ہیں۔ ماہرین نے جھوٹے کی پہچان میں آسانی کیلئے جھوٹے کی اقسام بھی بیان کی ہیں۔ پہلی قسم ہے فطری جھوٹا۔ جس کو اپنے جھوٹ بولنے میں مہارت پر یقین ہو اور وہ تسلسل سے اس پر عمل پیرا ہو۔ دوسری قسم ہے غیرفطری جھوٹا۔ یہ وہ ہوتا ہے جسے بچپن میں ہی اسکے والدین یقین دلا دیتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا ہے۔ تیسری قسم ہے عاشق جھوٹا۔ یہ جھوٹوں کا سلطان ہوتا ہے۔ یہ ہر سچ کو چھپانے میں نہ صرف ماہر ہوتے ہیں بلکہ ایک جھوٹ کو مزید غلط بیانیوں کی ہزاروں تہوں میں چھپانے کیلئے ہر سطح پر جاتے ہیں۔ اپنی پر کشش شخصیت کو استعمال کرتے ہوئے اور جنس مخالف کو بھی جیتنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ وہ دوسروں کا استحصال کرنے کیلئےجارحانہ طرز عمل اور دروغ گوئی کی کسی بھی سطح تک پہنچنے سے گریز نہیں کرتے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ جھوٹ بولنے میں برتری لیجانے میںاور اپنی پروڈکٹ کو بیچنے کیلئے سیاستدانوں کے سر پر سونے، وکلاء پر چاندی اور تاجروں پر کانسی کا تاج پہنایا جاتا ہے۔ جدید دنیا کی تاریخ میںبہت بڑے بڑے ثابت شدہ سیاسی جھوٹ بولے گئےہیں ان میں سے صرف آٹھ جھوٹ یہاں بیان کرتی ہوں۔ 2009 میں باراک اوباما نے نعرہ دیا تھا ۔اگر آپ کو ہیلتھ کئیر پسند ہے تو میرا ہیلتھ انشورنس پلان حاضر ہے۔ صرف چار سے پانچ فیصد امریکیوں نے جب یہ پلان خریدا تو انھیں سخت مایوسی ہوئی اور آخرکار یہ جھوٹ یعنی محض انتخابی اسٹنٹ ہی ثابت ہوا جس کے بعد اوبامہ کو رخصت ہی ہونا پڑا۔ 2003میں جارج بش نے عراق پر حملہ کی بنیاد یہ بنائی تھی کہ وہاں ہمیں تباہ کن کیمیائی ہتھیار اور بائی لوجیکل لیبارٹریاں ملی ہیں۔ اس سےقبل 2002میں امریکی نائب صدر ڈک چینی نے کہا تھا سادہ ترین الفاظ تو یہ ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدام کے پاس تباہ کن کیمیائی ہتھیار موجود ہیں جنھیں وہ ہمارے خلاف،ہمارے اتحادیوں اور دوستوں کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ 1994میں امریکی سگریٹ ساز کمپنیوں کے نمائندے جیمز ڈبلیو جانسن نے کانگریس کے سامنے حلف اٹھا کر کہا تھا کہ کہ ان کی پروڈکٹ سے کی جانے والی سگریٹ نوشی کافی اورچائے سے زیادہ نشہ آور نہیں۔ اور یہ دعویٰ سگریٹ ساز کمپنیاں پچاس سال تک دہراتی رہیں جو لغو ہی ثابت ہوا۔ رونالڈ ریگن نے 1986میں دروغ گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے ہتھیاروں کی تجارت نہیں کرتےجبکہ 80کی دہائی میں لبنان سے امریکیوں کی رہائی کے بدلے امریکہ نے ایران کو ہتھیار فراہم کئے تھے۔1982 میں رونلڈ ریگن نے کہا تھا اس امر کی کوئی شہادت موجود نہیں کہ امریکہ نے شہریوں کی قتل و غارت میں ایل سلوا ڈور کی فوج کی مدد کی تھی۔1972 میں صدر نکسن نے واٹر گیٹ اسکینڈل سامنے آنے پر کہا تھا اس اسکینڈل میں وائٹ ہائوس کا کوئی انتظامی افسر یا اہلکار ملوث نہ تھا۔1964 میں امریکی صدر لنڈن جانسن نے کہا تھا امریکی فوجیوں کو لڑنے کیلئے ہم وطن سے 9 ہزار میل دور ویت نام جنگ میں نہیں بھیج رہے ہیں جس طرح ایشین لڑکے اپنا وطن چھوڑ کر امریکہ آتے ہیں۔
فلسفیوں اور ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ جھوٹ بولنے والے اکثر افراد کو زعم ہوتا ہے جس پر انحصار کرتے ہوئے وہ ایک خاص قسم کی احمقانہ غلطی کرتے ہیں کہ انکا جھوٹ کبھی سامنے نہیں آئے گا اور وہ آسانی سے جیت سکتے ہیں اورجیتتے چلے جائیں گے۔یہ تو طے ہے مغرب ہو یا مشرق، سیاستدان ہو یا تاجر ان کا بولا ہوا جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہےاور وہ چھپ نہیں سکتا۔ وطن عزیز کی سیاسی صورتحال اتنی پراگندہ ہوگئی ہے کہ ہر طرف جھوٹ جھوٹ جھوٹ کا دور دورہ ہے۔ آج کوئی بھی شخص کسی قسم کی بھی لغو، بے معنی ،غیر سنجیدہ اور جھوٹی بات بڑی ہی آسانی سے کہہ دیتا ہے۔
فنکاروں یعنی اداکاروں کو اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ بھی بڑے جھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی گزشتہ دس سالہ سیاست میں خود کو اداکاروں سے بھی بڑا فنکار ثابت کردیا ہے۔ چیئرمین کی طرف سےپاناما لیکس پر خاموش رہنے کے عوض دس ارب روپے کی پیشکش کا ا علان بھی ایسا ہی جھوٹ ہےجس کو ماہرین نے جھوٹ کی ساتویں قسم یعنی دغا بازی پر مبنی جھوٹ قرار دیا ہے اور یہ جھوٹ بولنے والے کو جھوٹا عاشق اور جھوٹوں کے سلطان کے لقب سے نوازا ہے۔ جدید دنیا ہو یا تیسری دنیامذہبی رہنمائوں اور تمام مذاہب کی کتب میں یہ اتفاق پایا گیا ہے کہ جس طرح ناحق خون نہیں چھپتا بالکل اسی طرح جھوٹ بھی مخفی نہیں رہ سکتاہے یعنی دیر ہے اندھیر نہیں۔ عمران خان کے طرز سیاست اور تسلسل سے کی جانے والی دروغ گوئی پر سنجیدہ اور عوامی حلقے جو کبھی ان کے پیرو کار بنے تھے اب بڑی تیزی سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے ہیں ۔



.
تازہ ترین