کراچی(ٹی وی رپورٹ)وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ آزادیٴ اظہار کیلئے قربانی دینے والے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں،نیوز لیکس رپورٹ پر نوٹیفکیشن وزیراعظم ہاؤس سے وزارت داخلہ چلا گیا ہے،یہ نوٹیفکیشن کل ہوجانا چاہئے تھا لیکن یہ معاملہ جلد نتیجے تک پہنچ جائے گا، ہر چیز میں خیر ہونی چاہئے اور خیر ہوگی، نیوز لیکس پر مکمل پراسس کے ذریعے جے آئی ٹی رپورٹ آئی ہے،اب اس معاملہ کو ختم کر کے آگے بڑھنا چاہئے، میں نے رپورٹ یا نوٹیفکیشن نہیں دیکھا کہ ڈان اخبار کیخلاف کس قسم کی کارروائی کا کہا جارہا ہے، نوٹیفکیشن میں اے پی این ایس کو قانون کے مطابق ڈسپلن کیلئے کارروائی کیلئے کہا گیا ہے، ہمیں کچھ بھی کرنے سے پہلے وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کا انتظار کرنا چاہئے، صحافیوں کی طرف سے ڈان اخبار کے ساتھ جس طرح یکجہتی کا جذبہ دکھایا گیا یہ ہونا چاہئے، اس احتجاج کو اس تناظر میں نہ دیکھا جائے کہ پاکستان میں آزادیٴ اظہار کی آزادی کو محدود کیا جارہا ہے بلکہ یہ ایک مخصوص معاملہ سے متعلق ہے۔وہ جیونیوزکے پروگرام’’کیپٹل ٹاک‘‘میں میزبان حامد میرسے گفتگو کررہی تھیں۔پروگرام میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی اورسینئرتحقیقاتی رپورٹرعمرچیمہ نے بھی شرکت کی۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عارف علوی کا کہنا تھا کہ حکومت نے میڈیا کمیشن کی بہت سی سفارشات مانیں لیکن پھر قلابازی کھالی، وزارت اطلاعات حکومت کا دفاع کرنے کے علاوہ بہت کم کام کرتی ہے، وزارت اطلاعات کلبھوشن یادیو اور کشمیر کے معاملہ پر موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے، وزارت اطلاعات نہیں ہونی چاہئے تمام محکمہ اپنے اشتہارات خود دیں، حکومت اور وزراء کے بیانات اور داخلہ و خارجہ پالیسیاں میڈیا خود دکھائے گا۔عارف علوی نے کہا کہ نیوز لیکس رپورٹ پر جس طرح پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اس سے لگتا ہے کہ چھوٹی مچھلیوں کی قربانی دی گئی ہے جبکہ بڑی مچھلی ابھی بھی چھپی ہوئی ہے، اگر بڑی مچھلی کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ہے تو افسوس کی بات ہے کہ چھ ماہ کی تحقیقات کے بعد بھی ذمہ دار کا پتا نہیں چلا۔صحافی عمر چیمہ کا کہناتھا کہ پاکستانی صحافت کو بہت مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے صحافیوں کے درمیان پروفیشنل سطح پر بھی اتحاد اور تعاون کی ضرورت ہے، جب ایک ہی خبر مختلف اخبارات میں ایک ہی خبر چھپے گی تو چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بہت معاون ہوگی،پاناما پیپرز کی خبر عالمی نہ ہوتی تو پاکستان میں دبادی جاتی کیونکہ اس میں بڑے بڑے لوگوں کے نام آرہے تھے۔پروگرام میں مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافیوں کی پروفیشنل ڈویلپمنٹ کسی سطح پر نہیں ہورہی ہے، دنیا بھر میں نان پروفیشنل کی صحافت جوائن کرنے سے پہلے آن دا جاب ٹریننگ کرائی جاتی ہے، یہی فریم ورک انفارمیشن سروسز اکیڈمی کے اندرشروع کیاجارہا ہے جس میں سرکاری اور نجی میڈیا کے صحافیوں کی تربیت کی جائے گی، پاکستان میں صحافیوں کو سیکیورٹی اور ویلفیئر کے مسائل بھی درپیش ہیں جس میں ویج بورڈ بھی شامل ہے ، صحافی ویج بورڈ کے قانونی حق کیلئے لڑتے رہ گئے ہیں، جرنلسٹ پروٹیکشن بل میں صحافیوں کی سیکیورٹی، سیفٹی اور ویلفیئر کو مدنظر رکھا جائے گا، بل سے متعلق مشاورت کا مسودہ تیار ہوگیا ہے اسے ایک لاء فرم کو دیا جارہا ہے تاکہ قانونی طور پر تمام چیزیں سیف گارڈ کی جاسکیں اور ایسا لیگل فریم ورک ہو جو تمام چیزوں کو قانونی تحفظ دے اور عملدرآمد فوراً شروع ہوجائے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو ایک ملاقات کی بنیاد پر غدار قرار دیا گیا، پاکستان میں ایونٹ بنایا جاتا ہے رپورٹ نہیں کیا جاتا ہے، کارپوریٹ سیکٹر کا میڈیا پالیسی پر اتنا اثر ہے کہ اگر کسی بیوریج کی بوتل سے مکھی نکل آئے تو اسے بھی کوئی رپورٹ نہیں کرسکتا ہے، اخبارات کی سرکولیشن اور ایڈورٹائزمنٹ کو ڈی لنک ہونا چاہئے،اخبارات کی سرکولیشن سے متعلق نظام آٹومیشن کی طرف لے کر جارہے ہیں جس کا فائدہ ریجنل اخبارات کو ہوگا، وزارت اطلاعات ایڈورٹائزمنٹ کیلئے نہیں ہے اس کیلئے پی آئی ڈی کا محکمہ ہے۔پروگرام میں عارف علوی کا مزید کہنا تھا کہ آزادیٴ صحافت برقرار رکھنے کیلئے اتحاد بہت اچھی چیز ہے، صحافیوں نے پاکستان اور صحافت کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں، پاکستان کی صحافت اور صحافی ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہیں، صحافت کی آزادی دنیا بھر میں دباؤ کا شکار ہے، اس وقت دنیا بھر میں صحافت سرمائے کی غلام بن چکی ہے، صحافت پر سیلف ریگولیشن کی ذمہ داری پچھلے بیس سال سے ہے لیکن اس حوالے سے کوئی مشترکہ دستاویز سامنے نہیں آپارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ آزاد ہے، میڈیا میں تین پالیسیاں ہیں، ایک پالیسی اشتہارات کی بنیاد پر ، دوسری مالکان کی اور تیسری صحافی اور شفاف صحافت کی پالیسی ہے، پاکستان میں میڈیا کے اندر اشتہارات سے جڑی پالیسی بہت مضبوط ہے، حکومتیں چینلز کو اشتہارات دیتی ہیں تو اپنی پالیسی بھی ڈکٹیٹ کرتی ہیں جو کافی نقصان دہ کیفیت ہے، میڈیا مالکان کی پالیسی کا تعلق بھی کافی حد تک ایڈورٹائزمنٹ پالیسی سے ہوتا ہے جو عوام تک صحیح پالیسی نہیں پہنچنے دیتی ہے، بہت کم جریدے اور ٹی وی چینلز یا کچھ اینکرز آزادانہ کام کرتے ہیں۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تحقیقاتی رپورٹر عمر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی صحافیوں کیلئے خطرات اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان کی نوعیت بدل گئی ہے، پہلے جب ہم مار پڑنے پر چیختے تھے تو لوگوں کو پتا چلتا تھا کہ مار پڑ رہی ہے، اب ہمیں اس طریقے سے مار پڑ رہی ہے کہ اگر ہم چیخیں تو لوگ ہمیں پاگل کہتے ہیں،پہلے معاملات صحافیوں کی سطح پر ہینڈل ہوتے تھے اب مالکان پر بہت زیادہ دباؤ آجاتا ہے، میڈیا میں نان پروفیشنل لوگ صحافت کی خدمت کرنے نہیں بلکہ اپنا منافع بڑھانے اور مجرمانہ سرگرمیوں کو تحفظ دینے کیلئے آتے ہیں، جعلی ڈگری والے بھی اس کی ایک مثال ہیں جن کا آج چینل لائسنس بھی کینسل ہوا ہے، ان کے کیس کو میں نے بہت قریب سے دیکھا اور اس کے بعد میرا پاکستان کے نظام سے اعتماد اٹھ گیا ہے، جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں باعزت طریقے سے بری ہوگیا تو یہ اس طرح ہوتا ہے کہ پراسیکیوشن کے پاس شواہد ہیں مگر اس نے پیش نہیں کیے توجج وہاں کیا کریں گے، اس کیس میں بھی سمجھوتے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ دوسرے نان پروفیشنل لوگ بھی میڈیا میں آئے ہیں، اس سے ایک طرف تو صحافیوں کو بالکل تنخواہ نہیں ملتی جبکہ کچھ کو بہت ساری تنخواہ مل رہی ہے لیکن وہ لکھ نہیں سکتے ہیں۔حامد میر کے سوال کیا یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگ خبر دبانے کیلئے اشتہارات یعنی سرمائے کا استعمال کرتے ہیں؟ کے جواب میں عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ مجھے اس چیز کا تجربہ پاناما پیپرز پر کام کر کے ہوا، کئی بڑے بزنس مین جن کے صرف رپورٹ میں نام چھپے تھے انہوں نے اشتہار بند کردیئے، میڈیا میں سب سے زیادہ سنسرشپ ایڈورٹائزر کی طرف سے آتی ہے، ان کیخلاف کوئی چھوٹی موٹی خبر ہی چلادی جائے تو اشتہارات بند کردیتے ہیں۔عمر چیمہ نے کہا کہ کارپوریٹ سیکٹرکے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے غیرمنافع بخش میڈیا سینٹرز کی اشد ضرورت ہے جنہیں اشتہارات بند ہونے کا خدشہ نہ ہو، امریکا اور مغرب میں کارپوریٹ سیکٹر کے دباؤ سے نمٹنے کیلئے نان پرافٹ میڈیا سینٹرز قائم کیے گئے ہیں، آئی سی آئی جے بھی نان پرافٹ سینٹر ہے، آئی سی آئی جے پر پاکستان کیخلاف سازش کرنے کا الزام بڑا گھسا پٹا ہے، جو لوگ خود اس کا شکار ہوں اور ان پر خود ملک دشمن ہونے کے الزاما ت لگتے ہوں انہیں ایسے الزامات لگانے سے احتراز برتنا چاہئے، یہ نہیں ہوتا کہ اگر آپ وزیراعظم بن گئے ہیں تو آپ سب سے زیادہ محب وطن اور دوسرے غدار ہوجاتے ہیں۔عمر چیمہ نے کہا کہ نیوز لیکس میں جن لوگوں کو فارغ کیا گیا ان پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی بلکہ خبر رکوانے میں ناکامی اور رپورٹر کا فون سننے اور پیغامات ایکسچینج کرنے پر فارغ کیا گیا ہے، آئندہ تو کوئی بھی صحافیوں کو معلومات نہیں دے گا،قومی سلامتی کو طے کر کے واضح کرنا چاہئے، قومی سلامتی سے متعلق ابہام میں اسی لئے رکھا جاتا ہے کہ جدھر جی چاہے پکڑلیا جائے۔پروگرام میں پاکستان میں آزادیٴ صحافت کو درپیش خطرات کے حوالے سے دکھائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق آزادیٴ صحافت میں 180ممالک میں پاکستان کا نمبر 139واں ہے، بین الاقوامی صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 1992ء سے 2017ء تک پاکستان میں 148 صحافی فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے گئے، جمہوریت کے دور میں بھی بائیکاٹ اور سیلف سنسرشپ رائج ہے، رپورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے جاوید چوہدری نے کہا کہ صحافیوں اور اینکر پرسن پر ناظرین، سیاسی جماعتوں اور اشتہارات دینے والوں کا دباؤ ہوتا ہے ہمیں ان سب کو ذہن میں رکھ کر پروگرام کرنا ہوتا ہے۔ کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ پچھلے ساڑھے تین سال میں پچیس مہینے مسلم لیگ ن کی حکومت نے میرا بائیکاٹ کیا،یہ صحافت پر ایک اور طرح کا دباؤ ہے، دنیا بھر میں حکومتیں اس طرح نہیں کرتیں کہ چینلز یا کچھ پروگرامز کا بائیکاٹ کردیں۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ہم سے سچ کہنے، سچ لکھنے اور سچ بولنے کی بہت سی جگہ چھن گئی ہے اور بدقسمتی سے کوئی آمریت نہیں بلکہ جمہوریت ہے۔پروگرام میں میزبان حامد میر نے کہا کہ آزادیٴ صحافت کے عالمی دن پر دنیا بھر کے صحافی سوال اٹھارہے ہیں کہ ان کی صحافت کو درپیش خطرات کیسے اور کب ختم ہوں گے، پاکستان میں بھی آج اس سلسلے میں بہت سے سیمینارز اور کانفرنسیں ہوئیں، آج اسلام آباد میں پی ایف یو جے نے ڈان اخبار سے یکجہتی کیلئے اس کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا، آج صحافتی اور سیاسی حلقوں میں یہی سوال زیربحث تھا کہ کیا پاکستان میں صحافت اتنی ہی آزاد جتنی پارلیمنٹ ہے اور پارلیمنٹ کتنی آزاد ہے۔