پاکستان میں فٹبال کے کھیل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، دنیا کے210 ممالک فٹبال کی عالمی تنظیم سےجڑے ہیں جن میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
پاکستان اس وقت تاریخ کی سب سے بد ترین201 رینکنگ پر موجود ہے، پڑوسی ملک بھارت جو کبھی ہمارا ہم پلہ ہوتا تھا سب سے بہترین پوزیشن یعنی ٹاپ100 میں شامل ہے۔
فٹبال کی بات ہو اور ذکر لیاری کا نہ ہوایسا ممکن نہیں، کھیل کی نرسری کا درجہ رکھنےو الے علاقے میں اب گراس گرائونڈز نایاب ہوگئے ہیں، ڈسٹرکٹ ساؤتھ فٹبال ایسوسی ایشن سے رجسٹرڈ134 کلبوں کے6 ہزار فٹبالرز مٹی کے میدان میں کھیلنے پر مجبور ہیں۔
لیاری 17لاکھ کی آبادی رکھنے والا علاقہ ہے،یہاں سے قومی اسمبلی کا ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کے دو نمائندے منتخب ہوتے ہیں،لیکن اس کے باوجود یہاں سے کیپٹن عمر بلوچ، حسین کلر، غفور مجنا، تراب علی،قادر بخش پتلا،علی نواز جیسے بڑے نام کیوں سامنے نہیں آرہے؟
اس کی وجہ فٹبال ٹورنامنٹس کی کمی اور اداروں کی ٹیموں کی بندش ہے، ایک نجی بینک کی فٹبال ٹیم بند ہوچکی،کئی اداروں کی ٹیمیں ہیں لیکن فٹبال نہ ہونے سے ان کی بندش کا خدشہ بھی پیدا ہورہا ہے،جس کام کے لئے فٹبالرز اداروں میں ملازمت پر رکھے گئے ہیں،اگر وہ فٹبال نہیں کھیل سکیں گے تو کیا کریں گے؟ان سے اور کونسا کام لیا جائے گا؟
پاکستان کے سابق کپتان لیجنڈری فٹبالر علی نواز بلوچ نے بھی ملک میں کھیل کا مستقبل عدالتی فیصلے سے وابستہ کرلیا ہے،وہ بھی سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے بغیر پاکستان میں فٹبال کے حوالے سے درست فیصلے نہیں ہوسکتے،عدالتی فیصلہ فیصل صالح حیات کے حق میں ہو یاکرنل فراست گروپ کے مگر اب آجائے تاکہ کھیل ایک سمیت کی طرف جاسکے، یہی رویہ ہے جس کی وجہ سے دوسال سے ملکی فٹبال کے دروازے مکمل طور پرکھلاڑیوں کے لئے بند پڑے ہیں،جو یقینا ً نقصاندہ عمل ہے۔
پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والے لیاری کےسابق مایہ ناز فٹبالر علی نواز بلوچ جو ماضی میں پاکستان فٹبال فیڈریشن میں نائب صدر کے عہدے پر کام کرچکے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ اس وقت فٹبال میں اسپانسرشپ کم اور حکومتی گرانٹ برائے نام تھی،پاکستان کو غیر ملکی ٹورز میں ٹیمیں بھیجنے کے لئے مشکلات کا سامنا تھا،اب جب فیفا کی لاکھوں ڈالرز کی گرانٹ اور اسپانسرز بھی ہیں لیکن فٹبال فیڈریشن کے معاملات الیکشن کے نہ ہونے سے تعطل کا شکار ہیں، جب آپ کے ملک میں دو سال سے فٹبال کا کوئی ایونٹ نہ ہورہا ہوں اور سنیئر سمیت جونیئرز کو انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں شرکت کا موقعہ نہ ملے تو فٹبال میں بہتری کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟
علی نواز نے عدالت عالیہ سے درخواست ہے کہ پاکستا ن کے تمام فٹبالرز کی نظریں آپ پر لگی ہوئی اس کیس کا جلد ازجلد فیصلہ کرکے فیڈریشن کے الیکشن کرائیں تاکہ منتخب لوگوں کو کام کرنے میں آسانی ہوسکے، عالمی سطح پر فٹبال کے بہترین اور اعلی معیار کے میدانوں میں فٹبال کھیلی جاتی ہے،المیہ یہ ہےکہ لیاری کے فٹبالر گھاس کے گرائونڈز کے بجائے مٹی کے میدانوں میں مجبوراً کھیل رہے ہیں، ان کے پاس کوئی عالمی معیار تو دور کی بعد نیشنل سطح کے آل پاکستان ٹورنامنٹ کرانے کے لئے بھی بڑے اسٹیڈیم نہیں ہیں۔
پیپلز پارٹی کے گڑھ اور لیاری سے محبت کا دامن بھرتی حکومت نے کبھی لیاری کے فٹبالرز کے لئے مستقل بنیادوں پر کوئی اقدامات نہیں کئے ،ماضی میں فٹبال کے گڑھ لیاری میں حالات کی خرابی کہ وجہ سے فٹبال کی سرگرمیاں ماند پڑگئی تھی لیکن اب سندھ رینجرز اور پولیس کی مدد سے علاقے میں قیام امن کی کوشش سے حالات بہتر ہونے اور امن کی فضا قائم ہوجانے کے بعد سے فٹبالرز ایک مرتبہ پھر سے متحرک ہوگئے ہیں،اب لیاری کے باہر سے بھی کلب کی ٹیمیں یہاں آخر کھیل رہی ہیں۔
پاکستان کی انڈر14اور انڈر16یوتھ فٹبال میں سے 9 فٹبالرز کا تعلق لیاری سے تھا، لیکن فیڈریشن کے معاملات میں گڑبڑ اور دو متوازن فیڈریشن کی وجہ سے قومی اور یوتھ ٹیموں کے فٹبالرز کا نقصان ہوا ہے۔