• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخری رات ہے یہ سر نہ جھکانا لوگو .....قلم کمان …حامد میر

یہ 1983ء کی بات ہے۔ لاہور کی شاہراہ قائداعظم پر خواتین کی تنظیموں نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف جلوس نکال رکھا تھا۔ حبیب جالب ریگل چوک میں فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر میگافون پر جلوس کی شرکاء کو یہ شعر سنا رہے تھے۔
حق بات پہ کوڑے اور زنداں
باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں
خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم
اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صَ ر صَر کو صبا
بندے کو خد ا کیا لکھنا
اچانک ایک پولیس افسر انہیں گریباں سے پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ جالب نے پوچھا کہ بھائی میرا جرم تو بتادے؟ پولیس افسر نے غُرّاتے ہوئے کہا کہ بُڈھے تو نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی ہے تو صدر پاکستان کو گالیاں دیتا ہے میں تیری گندی زبان کھینچ لوں گا۔ پھر اس نے جالب کو کھینچ کر پولیس کی گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کی تو کشور ناہید ، بشریٰ اعتزاز احسن اور طاہرہ عبداللہ سمیت دیگر خواتین نے جالب کو بچانے کی کوشش کی۔ پولیس افسر مزید غضب ناک ہوگیا اور اُس نے حبیب جالب کو سڑک پر لٹا کر مارنا شروع کردیا۔ وہ بوڑھے جالب کو مارتا جاتا اور کہتا جاتا کہ تم نے دفعہ 144 توڑی ہے میں تمہاری ٹانگیں توڑوں گا۔ اس دوران صدر پاکستان کے خلاف بھرپور نعرہ بازی ہوئی۔ پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا اور درجنوں خواتین و سیاسی کارکن زخمی ہوگئے۔ میں فوراً بس اسٹاپ پر جاکھڑا ہوا اور مارپیٹ سے بچ گیا لیکن میرے چھوٹے بھائی فیصل میر کی پولیس نے خوب ٹھکائی کی۔ یہ قصہ مجھے محض اس لئے یاد نہیں آرہا کہ یہ قصہ مجھے اس لئے یاد آرہا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی تھی اور آصف علی زرداری کے دور میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ 1983ء میں کشور ناہید ، بشریٰ اعتزاز احسن، طاہرہ عبداللہ اور دیگر خواتین حبیب جالب کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کررہی تھیں اور گیارہ مارچ 2009ء کی صبح کشور ناہید صاحبہ مجھے فون پر طاہرہ عبداللہ کی گرفتاری کی اطلاع دے رہی ہیں اور پوچھ رہی ہیں کہ کیا میں اپنی طاہرہ آپا کی رہائی کیلئے شیری رحمن، فہمیدہ مرزا یا فرزانہ راجہ سے بات کرسکتا ہوں؟ کشور ناہید صاحبہ کے فون کے بعد مجھے جالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
کہاں قاتل بدلتے ہیں
فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے
فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
طاہرہ عبداللہ کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ وہ سول سوسائٹی کی نمائندہ ہیں اور 9مارچ 2007ء کے بعد سے آزاد عدلیہ کے حق میں چلائی جانے والی تحریک میں شامل ہیں۔ بیماری کے باوجود جلوس اور مظاہروں کے اہتمام میں شامل رہتی ہیں۔ آصف علی زرداری کی حکومت اس بیمار عورت سے اتنی خوفزدہ ہے کہ گیارہ مارچ کی صبح ان کے گھر کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئی اور تین ماہ کی نظر بندی کا حکم نامہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ جو لوگ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف لڑتے رہے آج وہی لوگ آصف علی زرداری کے خلاف تحریک چلانے پر مجبور ہیں۔ زرداری صاحب کی حکومت عدلیہ کی آزادی کیلئے پرامن تحریک چلانے والوں کے خلاف وہی کچھ کررہی ہے جو جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی حکومتیں کرتی رہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ 10نومبر 2007ء کو محترمہ بینظیر بھٹو اسلام آباد کی ججز کالونی میں جسٹس افتخار محمدچوہدری کو ملنے گئیں تو پولیس نے انہیں روک لیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے میگافون پر پولیس والوں سے کہا کہ وہ ان کے راستے سے ہٹ جائیں اور مشرف حکومت کے احکامات نہ مانیں۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی گاڑی میں راجہ پرویز اشرف بھی موجود تھے اور انہوں نے عدلیہ کی آزادی کے علاوہ حبیب جالب کی ایک نظم کا یہ مصرعہ بھی بطور نعرہ بلند کیا۔ ”ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے“۔
اگلے دن گیارہ نومبر کو محترمہ بینظیر بھٹو نے لاہور روانہ ہونا تھا جہاں سے انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ دوپہر کو وہ لاہور کیلئے روانہ ہوئیں تو پولیس نے اطلاع دی کہ انہیں زرداری ہاؤس اسلام آباد میں نظر بند کرنے کا حکم جاری کیا جاچکا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا کہ وہ یہ حکم نہیں مانتیں اور وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر زرداری ہاؤس سے باہر آئیں تو پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ ٹو کی اسٹریٹ 19 اور 20کو دونوں طرف سے بند کردیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو میگافون پر مسلسل پولیس والوں سے کہہ رہی تھیں کہ وہ حکومت کے احکامات نہیں مانتیں اور پولیس بھی ان سے تعاون کرے۔ اس دوران دبئی سے آصف علی زرداری بار بار مجھے فون کرکے محترمہ بینظیر بھٹو کی خیریت دریافت کر رہے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچ گئیں اور وہاں انہیں لطیف کھوسہ کے گھر پر نظر بند کردیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جو کچھ جنرل پرویز مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو کے لانگ مارچ کے ساتھ کیا وہی کچھ آج صدر آصف علی زرداری کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وزیر داخلہ رحمن ملک وکلاء اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جنرل مشرف نے یہ ظلم 1973ء کا آئین معطل کرنے کے بعد کیا اور صدر زرداری کی حکومت آئین معطل کئے بغیر ہی آئین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ عیدمیلادالنبیﷺ کی شب سے اسلام آباد اور پنجاب میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور چھاپے حکومت کی بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نہیں۔ پنجاب میں ان کرپٹ پولیس افسران کو کریک ڈاؤن کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جنہیں شہباز شریف نے ان کی بری شہرت کے باعث پس منظر میں دھکیل دیا تھا۔ ان پولیس افسروں کو گورنر پنجاب کی طرف سے لانگ مارچ ناکام بنانے کی صورت میں نقد انعامات کا لالچ دیا گیا ہے۔ حکومت اپنی ہی پولیس کو بھاری انعام کا لالچ دے کر ایک پرامن تحریک کا راستہ روک رہی ہے۔ پنجاب کے بعض اضلاع میں فوج اور پولیس کو طلب کئے جانے کے بعد مجھے کوئی شک نہیں کہ اب پنجاب میں بھی وہی کچھ ہوگا جو سوات میں ہوتا رہا۔ وکلاء قیادت اور ان کے حامی سیاسی کارکن جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے کرفیو میں بھی سڑکوں پر نکلنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ ان کی فتح قریب ہے۔ بقول جالب
آخری رات ہے یہ سَر نہ جھکانا لوگو
حُسنِ ادراک کی شمعیں نہ بجھانا لوگو
تازہ ترین