• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہے کسی کے پاس جواب …؟ ... فکرفردا … راجہ اکبردادخان

آبائی معاشرے میں عمومی طورپر یہ نہیں دیکھا جارہا کہ آمدنی کے ذرائع درست ہیں یا نہیں۔ دوسروں کی املاک پہ قبضے جمالینے بالخصوص جہاں صحیح وارث بیرون ملک آباد ہوں اور ایک طویل عرصہ سے ملکی معیشت کی بہتری میں اپنے حصے ڈال رہے ہوں آسان بھی ہے اور بلاتردد، ذریعہ آمدنی بھی، متاثرین کے ساتھ پورے نظام کا ایک حصہ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوتے نہیں ملتا، بلکہ نظام ایک قصیضہ سے کئی دوسرے لپھڑے پیدا کرنے میں مدد گار بنتا ہے۔ حالانکہ بیرون ملک والے اونے پونے پہ بھی معاملات طے کرنے پہ تیار ملتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اگر ضلعی سطح کی انتظامیہ یہ معاملات طے کرنیکی طرف چل پڑے تو لوگوں کو ریلیف مل سکتا ہے۔ باتیں تو عرصہ سے ہو رہی ہیں مگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد مشکلات میں پھنس پڑی ہے۔ غالباً حکام حاصد ہیں کہ یہ بھائی بہن باہر کیوں نکل آئے۔ یورپ سے آنے جانے کو کبھی پوشیدگی میں اور کبھی تمام گھروالوں کے سامنے زبانی معاملات سے آگاہ کردیا جاتا رہا، جب برطانوی خاندانوں کی اولادیں جوان ہوئیں اور وہ اپنے انکلز سے معاملات طے کرنے کی طرف بڑھنے لگے تو ناراضگیاں پیدا ہوئیں ہر جگہ یہ برطانوی خاندان کم حصوں پہ بھی اکتفا کرنے پہ تیار ملتے ہیں مگر ہر جگہ یہ رشتہ دار ایک بڑے پلازہ یا ہوٹل میں سے ایک کمرہ دینے کو بھی تیار نہ ملے۔ جو جائیدادیں یہاں رہنے والوں نے خود وہاں خریدیں ان پہ بھی دوسرے قابض ہوگئے۔ اور یہاں آباد لوگوں کو کسی طرف سے مدد نہیں ملی۔ ہر شہر میں اس کمیونٹی کے ساتھ ایسی دھوکہ بازی اور ناانصافیوں کی خوفناک داستانیں سننے کی ملتی ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس سال سے جتنی تلخی اور ہوس اس معاشرہ میں مضبوط ہوئی ہے اس برطانوی کمیونٹی کو اسی تناسب سے زیادہ نقصانات اٹھانے پڑرہے ہیں یہ بھی درست ہے کہ کشمیری سیاستدان اپنے علاقائی اور برادری پس منظر کی وجہ سے اس کمیونٹی کے اندر زیادہ کھبے ہوئے ہیں، مگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ایسی ناانصافیوں کے ازالہ کے لئے مدد طلب کرنے کے لئے اس سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی طرف بڑھنا پڑا ہے اور اس interactionکا گراف اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کا برطانیہ آنا جانا بھی پہلے کی نسبت بہت بڑھ گیا ہے اور ہر مجلس میں جائیدادوں پہ قبضہ مافیا کے ڈسے لوگ ان طاقتور لوگوں سے تعاون مانگتے سنے جاتے ہیں۔ مسئلہ کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہائی کمیشن لندن اور اس کے ذیلی دفاتر میں خصوصی سٹاف تعینات کردیا جاتا، جو ان شکایات پہ A TO Zتک انکوائری کروا کر معاملات کو جلدی کسی طرف لگادینے کا کردار ادا کرتا ذاتی مشاہدہ ہے کہ لوگوں کو اعتماد نہیں کہ ہائی کمیشن ان کی اس حوالہ سے کوئی مدد کر سکتا ہے۔ حالانکہ "Where there is will, there is way"پہ عمل کرتے ہوئے جلد انصاف کے لئے راہیں بنائی جاسکتی ہیں۔31 مارچ کے اپنے مراسلہ ’’کمشنروں کا ہجوم‘‘ میں پاکستان ہائی کمیشن کے علاوہ چلنے والی کمشنریز کا ذکر کیا تھا اور توقع ظاہر کی تھی کہ یہ کمیونٹی اعتماد کے لئے نہایت بہتر ہوگا کہ ان کمشنریز کے سیاسی اور منصبی دائرہ کار کے خدوخال اس کمیونٹی سے شیئر کرلیے جائیں۔ پچھلے چند ہفتوں میں کوئی نصف درجن احباب نے اپنی جائیداد پہ قبضوں سے متعلق مشکلات سے آگاہ کیا اور مدد کے لئے رہنمائی مانگی، جو کچھ سمجھ بوجھ میں آیا عرض کردیا۔ میری نالائقی دیکھئے کہ میں ان میں سے کسی بھائی کو ان تازہ دم کمشنرز کے رابطہ نمبر یا ایڈریس نہ دے سکا، یہ اپروچ درست ہوگی کہ یہ احباب ان کمشنرز سے معاونت حاصل کرتے ہوئے اپنے معاملات نمٹالینے کی طرف بڑھ چلیں۔ محترم کمشنر حضرات سے درخواست ہے کہ میرے ای میل ایڈریس پہ مجھے اپنا رابطہ پکڑادیں۔ میں ان بھائیوں کو وہ رابطہ دے دوں گا اپنے آبائی ملک کے خلاف مظاہرے اچھے نہیں لگتے۔ اس کمیونٹی کی املاک پہ اپنے اور غیروں سبھی نے ہر شہر، قصبہ اور گائوں میں غیر قانونی قبضے کررکھے ہیں اور یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے جس کے لئے یہاں اور وہاں ایک مستعد ٹیم کے کام کرنے کی شکل میں معقول وقت میں نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں اگر حکومت وقت ساتھ دینے کے لئے تیار ہوجائے تو معاملات زیادہ اچھے انداز میں حل ہونے میں مدد مل سکتی ہے اس حوالہ سے اگر کوئی نیوٹرل ادارہ بن جائے تو نہایت موزوں ہوگا۔ جب ان احباب سے میری گفتگو ہورہی تھی تو ہر ایک نے کئی بار کہا کہ میں ان کی داستان کا اخبار میں ذکر کردوں، مقصد یہی تھا کہ پاکستان میں حکام کو پتہ چلے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جس کا ہر وزیر، نمائندہ بیرون ملک پاکستانیوں سے اپنی دولت پاکستان لانے کے لئے ہر فورم پہ پر زور اپیلیں کرتا ہے اس فرد کی ملک کے اندر پہلے سے موجود املاک پہ طاقتور لوگ غیر قانونی قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور نظام ہر قدم پہ ان طاقتور لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں یہی حکومتی وزرا اور دیگر بڑے اہلکار بتائیں کہ بیرون ملک بسنے والے کس طرح اپنی پونجی اس ملک میں لائیں؟ ہے کسی کے پاس کوئی جواب؟ یورپ سے گئے ہوئے لوگوں کو عدالتی معاملات میں الجھا کر یہ قبضہ گروپ ہر قدم پہ مزید مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔ ہم سب کو علم ہے کہ اس بے رحم معاشرہ کا ہر کل پرزہ ہم بیرون ملک والوں کو ٹارگٹ کرتا ہے اور ہماری راست بازی اور انصاف پسندی کو کمزوری جان کر ہمارے اردگرد بیشتر معاملات میں ایسے جال بن دیئے جاتے ہیں کہ بخریت باہر نکلنے کی راہیں نہیں ملتیں۔ فارمولے ذہن میں آتے ہیں پہلا یہ ضلع ، تحصیل کی سطح پہ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ایک مختصر اور کلی طور پہ خود مختار کمیٹیاں بن جائیں جو مختصر ترین وقت میں ان قبضوں کی حقیقت جان کر فیصلے کردیں اور ان فیصلوں کو ہائی کورٹ سے کم سطح پہ چیلنج نہ کیاجاسکے۔اگر حکومتیںچاہیں تو اس حوالہ سے مختصر ترین وقت میں قانون سازی ہوسکتی ہے ہم بیرون ملک والوں کو ایسی سکیم سے مناسب ریلیف ملتی ہے تو اسے قبول کرلینا عقلمندی ہوگی۔ کیونکہ باقی روٹس طویل اور مہنگے ہیں، دوسری تجویز بھی ملتی جلتی ہے کہ اس کمیٹی کے دائرہ کار میں مقامی طورپہ اٹھنے والے خاندانی جھگڑوں کا موقع پہ ہی حل تلاش کرلینا بھی شامل ہوجائے تو گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہونے والے کئی معاملات حل ہوجائیں گے اور برطانوی خاندان قدرے بہتر ماحول میں اپنا وقت گزار کر ایک بہتر موڈ میں واپس برطانیہ آجائیں گے، زمین جنبدنہ جنبد ،گل محمدنہ جنبد، میں ان تجاویز کو اپنے 25 اگست 2016 کے خط میں حکومت آزاد کشمیر اور پنجاب کو مزید چند تجاویز کے ساتھ پاکستان ہائی کمیشن لندن کی معرفت بھجواچکا ہوں بدقسمتی سے اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ بیورو کریسی ہر معاشرہ میں اپنی ہی رفتار سے کام کرتی ہے مگر اس طرح کی بے حسی پہ شکایت جائز ہے۔ اس توقع کے ساتھ ہر گفتگو کسی نہ کسی شکل میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ برطانیہ آنے والے سیاستدانوں کو اس مسئلہ کی سنجیدگی سے آگاہی مہیا کرنا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔ ہم وہاں موجود نہیں۔ قبضہ کرنے والے صبح شام ان لوگوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں ووٹر سپورٹر بھی ہوتے ہیں اس لئے اگر ایک غیر سیاسی سٹرکچر بن جائے جس کو تمام جماعتوں کی سپورٹ مل سکتی ہے تو وہ آپشن اس کمیونٹی کے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔ بات ہر جگہ بالاخر مقامی حکام کی نیتوں پہ ختم ہوگی، میری رائے میں اس طرح کے چھوٹے مگر فوکسڈ اقدامات سے کمیونٹی کو ریلیف بھی مل سکتی ہے اور اس ملک اور معاشرے کا اچھاامیج مزید بلند ہوسکتا ہے، یقیناً ہر حکومت کو ایسے غیر متنازع اور مفید اقدامات ہر روز اٹھاتے رہنا چاہئیں۔ اللہ تمام حاکمان وقت کے دلوں میں اس کمیونٹی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی سوچ پیدا کرنےکی قدرت رکھتا ہے ۔ آمین

.
تازہ ترین