• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب اسمبلی میں آواز اٹھانے پر عظمیٰ بخاری کو سلام کرتی ہوں،خدیجہ صدیقی

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں متاثرہ طالبہ خدیجہ صدیقی نےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں آواز اٹھانے پرعظمٰی بخاری کو سلام کرتی ہوں،سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہم تشدد کا شکار ہر بچی کے ساتھ ہیں، بچیوں کو اپنے ساتھ زیادتی بالکل قبول نہیں کرنی چاہئے، میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، پورے ملک میں اس کریک ڈاؤن کا چرچا ہے،لوگ پریشان ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ سترہ مئی کو ہم نے اپنے پروگرام میں ایک متاثرہ خاتون خدیجہ صدیقی پر کیے جانے والے ظلم کی تفصیل سامنے رکھی تھی،ہم نے بتایا کہ کیسے اسے خنجر سے 23بار نشانہ بنایا گیا اور کس طرح خدیجہ کا کیس ایک سال سے عدالتی تاخیر کا شکار ہے، اس حوالے سے ہم نے نہ صرف خدیجہ کا موقف لوگوں کے سامنے رکھا بلکہ یہ بھی بتایا کہ انیس مئی یعنی آج ہونے والے امتحان میں قتل کرنے کی کوشش کی سنگین واردات میں ملوث ملزم اور متاثرہ خاتون ایک ہی چھت کے نیچے امتحان دے رہے ہوں گے، اس معاملہ کو بڑے اخبارات اور نیوز چینلز نے بھی اٹھایا لیکن آج ہمیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری آفتاب باجوہ نے ایک لیگل نوٹس بھیجا جس میں کہا گیا ہے کہ میں اپنے اس خط کے ذریعے آپ کی توجہ سترہ مئی کو ہونے والے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ کی جانب دلانا چاہتا ہوں جس میں خدیجہ صدیقی بھی موجود تھیں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کی جانب سے اس لیگل نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سترہ مئی کو ہونے والے اس پروگرام میں متعدد مرتبہ وکلاء گردی کا لفظ استعمال کیا گیا اور وکلاء برادری کے ساتھ ساتھ عدالت کیلئے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے گئے، آفتاب باجوہ نے مزید کہا کہ میں آپ کی معلومات میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ خدیجہ کیس میں میں نے بحیثیت وکیل ذمہ داریاں ادا کی ہیں اور میں ان تمام حقائق کے حوالے سے معلومات رکھتا ہوں جنہیں اس پروگرام میں نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی سینئر وکیل کے ملزم بیٹے کو اس پروگرام میں دعوت دی گئی جوا ٓپ کے چینل اور اینکر کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے، ان حالات میں آپ کو ضرورت ہے کہ جلد از جلد لفظ وکلاء گردی کا استعمال بند کردیں، اس شو میں وکلاء گردی کی اصطلاح استعمال کر کے آپ نے ہتک عزت کی ہے جس کی وجہ سے آپ کو دو ہفتے کے اندر پچاس کروڑ کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا اگر آپ ان شکایات پر نظرثانی نہیں کرتے تو آپ پر متعلقہ قوانین کے ذریعے مقدمہ چلایا جائے گا۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ جب ہمیں یہ لیگل نوٹس موصول ہوا اور اس میں دوا ہم باتیں سامنے آئیں، پہلی یہ کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری خود یہ اقرار کررہے ہیں اور یہ لیگل نوٹس سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے باقاعدہ طور پر آفیشل لیٹر ہیڈ پر ہمیں بھیجا گیا ہے اورا س میں وہ اقرار کررہے ہیں کہ انہوں نے خدیجہ کیس میں بحیثیت وکیل ذمہ داریاں ادا کی ہیں توا س حوالے سے سوال اٹھتا ہے کہ یہ لیگل نوٹس انہوں نے ہمیں ذاتی حیثیت میں کیوں نہیں بھیجا، یہ بات کہنا کہ ہم نے ملزم کو یا ان کے بیٹے کو پروگرام میں نہیں بلایا، ذاتی حیثیت میں ملزم یا ان کے بیٹے کی طرف سے یہ لیگل نوٹس کیوں نہیں آیا، ایک ایسا بار جس سے اتنی بڑی بڑی شخصیات وابستہ ہیں، جن کی رول آف لاء کیلئے ، پاکستان میں جمہوریت کیلئے قربانیاں ہیں ، چاہے وہ عاصمہ جہانگیر ہوں، چاہے وہ اعتزاز احسن ہوں، چاہے وہ منیر اے ملک ہوں، چاہے وہ رشید اے رضوی ہوں، اس بار سے ایک لڑکی کا معاملہ اٹھانے کیلئے ہماری توقع تھی کہ یہ پیغام آتا کہ فیئر ٹرائل ہو، انصاف ہو اور اس شکایت کو دیکھا جائے گا کہ وکیل کہیں اس بات پر اثرانداز تو نہیں ہورہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ہم ایک بار پھر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے 17مئی کو ہونے والے پروگرام میں اس بات پر زور دیا کہ کس طرح وکلاء نے جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے اپنا کردار کیا، رولا ٓف لاء کیلئے اپنا کردار ادا کیا اس لئے ان پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اس قسم کے کیسز میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور اپنے اوپر یہ الزام نہ آنے دیں جو خدیجہ صدیقی کی طرف سے لگایا گیا کہ ان کے کیس میں بار بار یہ اثر و رسوخ استعمال ہوا ہے اور کالی بھیڑیں ہر جگہ، ہر پیشے میں موجود ہیں، ہم نے اپنے اس پلیٹ فارم کے ذریعے میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں پر بھی بات کی ہے، اگر وکلاء برادری میں بھی کچھ کالی بھیڑیں موجود ہیں تو کیا اس پر بات نہیں کی جاسکتی، کیا ایک لڑکی اپنا کیس نہیں اٹھاسکتی، یہ نہیں بتاسکتی کہ تمام ثبوت ہونے کے باوجود ایک سال سے عدالتی چکر لگارہی ہے، کیا ان کو سامنے نہیں لانا چاہئے، آج ہمارا کیس کے مرکزی ملزم سے رابطہ ہوا اور ان کے والد ہاشمی صاحب سے بھی بات ہوئی، ہم نے ملزم شاہ حسین کے والد سے رابطہ کر کے کہا کہ آپ پروگرام میں آیئے اورا پنا موقف تفصیل سے بتایئے، وہ ہم سے کہتے رہے کہ ہمارا قصور نہیں خدیجہ صدیقی کے وکلاء خود تاریخیں بڑھواتے ہیں، اس کے علاوہ ان کی طرف سے کوئی ثبوت نہیں دیئے جاتے اس لئے یہ کیس آگے نہیں بڑھ رہا، ہم نے کہا آپ آیئے اور یہ ساری باتیں آکر پروگرام میں کردیجئے، ہم نے کہا آپ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لایئے، اگر خدیجہ صدیقی نے اپنا سارا موقف بیان کیا ہے، اپنے بیٹے کو لے کر آیئے ان کا موقف بھی ہم سنیں گے، جہاں لگے گا سوال اٹھے گا سوال کریں گے، آپ سے بھی کریں گے اور آپ کے بیٹے سے بھی کریں گے اور وہ راضی ہوگئے، ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو تفصیلی موقف کیلئے ضرور ساتھ لایئے گا، مگر اس کے بعد ملزم کے والد تنویر ہاشمی نے پروگرام میں شرکت سے معذرت کرلی، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھی وکلاء سے مشورے کے بعد پروگرام میں نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ ہم نے جب انہیں یہ دعوت دی تو ہم نے خدیجہ صدیقی اور ان کے وکیل کو بھی بتایا کہ ہمارے پروگرام میں مرکزی ملزم کے والد اور ہوسکتا ہے مرکزی ملزم خود پروگرام میں آئے، ہم آپ کو بھی اپنے پروگرام میں آنے کی دعوت دیتے ہیں، خدیجہ صدیقی کے وکیل بھی فوراً مان گئے اور خدیجہ صدیقی نے کہا کہ ضرور، شاہ حسین کو پروگرام میں بلایئے جس نے مجھ پر حملہ کیا تھا میں خود اس سے بات کرنا چاہتی ہوں، وہ میرے سامنے آکر اس پروگرام میں کہے کہ اس نے مجھ پر حملہ نہیں کیا تھا اور یہ واقعہ درست نہیں، میں ان کے والد کے سامنے بھی آکر یہ بات کرنا چاہتی ہوں ۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ آج سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے سیکرٹری آفتاب باجوہ کوا ان کے عہدے سے ہٹادیا اور یہی آفتاب باجوہ ملزم شاہ حسین کے وکیل ہیں، میڈیا میں ا ٓواز اٹھ رہی ہے، خدیجہ کا معاملہ آج پنجاب اسمبلی میں بھی پہنچ گیا، ن لیگ کی رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری نے خدیجہ کیلئے بھرپور انداز میں آواز اٹھائی،وہ چاہتی تھی کہ پورا ایوان آواز اٹھائے کم از کم خواتین ان کے ساتھ کھڑی ہوں، اس ساری صورتحال میں ان کے اپنے اسپیکر نے انہیں جو رسپانس دیا اس کے نتیجے میں عظمیٰ بخاری کو واک آؤٹ کرنا پڑا ، جب عظمیٰ بخاری واک آؤٹ کررہی تھیں تو پنجاب اسمبلی کی خواتین ارکان نے بھی کوئی توجہ نہیں دی، شہباز شریف دعویدار ہیں کہ خواتین کو ہراساں کرنے خلاف وہ بڑے اقدامات کررہے ہیں، لیکن اس اہم معاملہ کو اٹھانے پر پر پنجاب اسمبلی کی ن لیگی رکن اسمبلی کو خود واک آؤٹ کرنا پڑگیا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ملک میں سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، پورے ملک میں اس کریک ڈاؤن کا چرچا ہے، لوگ پریشان ہیں کہ یہ معاملہ کیا ہے، جو لوگ فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں وہ بھی خوفزدہ ہیں، گزشتہ روز ایف آئی اے کی کمیٹی نے سالار سلطان زئی نامی شخص کو بلا کر اس حوالے سے پوچھ گچھ کی ہے، سالار اپنا تعلق تحریک انصاف سے بتاتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ تحریک انصاف کی سائبر فورس کا بانی ہے یعنی وہ فورس جو سوشل میڈیا پر ایکٹو ہے اس کا بانی ہے، سالار کے علاوہ تحریک انصاف کے ایک رکن اویس خان سے بھی پوچھ گچھ کی گئی جس کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خا ن نے کڑی تنقید بھی کی۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ شدید تنقید کے بعد اس بات کو واضح کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یہ جو کریک ڈاؤن ہوا ہے ، جو سائبر فورس لاء کو استعمال کیا جارہا ہے اس میں کیا تنقید اور تذلیل کے فرق کو واضح طور پر رکھا گیا ہے یا نہیں، آزادی رائے کے اظہار کو اور نفرت انگیزی کو مدنظر رکھ کر بات کی گئی ہے یا نہیں، یا محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس پر تحریک انصاف تنقید کررہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ کچھ دن پہلے چوہدری نثار نے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف بلاجواز تنقید کرنے والوں کیخلاف کارروائی کا حکم دیا تھا اور ہدایت دی تھی کہ ملوث افراد کا تعلق کسی سے بھی ہو بلاتفریق کارروائی کی جائے، سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کیخلاف کارروائیاں ہورہی ہیں، فوج اور ریاست پر تنقید کرنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، ایف آئی اے کی کمیٹی نے کارروائی کے دوران اب تک آٹھ افراد کو بلا کر پوچھ گچھ کی گئی ہے، ایف آئی اے کی دو کمیٹیاں پہلے سے موجود ہیں جو سوشل میڈیا پر ججز کے خلاف توہین آمیز مواد اور توہین مذہب پر مواد شیئر کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرتی ہیں، اگر گزشتہ چند برسوں پر نظر ڈالی جائے تو 2013ء سے 2017ء تک سوشل میڈیا کیخلاف کارروائی میں 689 لوگ پکڑے گئے ہیں، 2017ء میں 49لوگ پکڑے گئے، 2016ء میں 178لوگوں کو ایف آئی اے نے پکڑا، 2015ء میں 276 لوگ پکڑے گئے، 2014ء میں 113اجبکہ 2013ء میں 73 لوگ پکڑے گئے، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو اب تک 20ہزار 49شکایات وصول ہوچکی ہیں، 2017ء میں 1816 شکایات موصول ہوئیں جبکہ 2016ء میں 9ہزار 76 شکایات موصول ہوئیں، اس وقت سوشل میڈیا پر موجود بہت سے لوگ تنقید بھی کرتے ہیں، وہ باقاعدہ طور پر بتارہے ہیں کہ ہمیں ایف آئی اے کی طرف سے بلایا جارہا ہے، ایف آئی اے کی جانب سے ملزمان کے خلاف کیسز بھی رجسٹرڈ کیے گئے ہیں، 2011ء سے 2017ء تک ایک ہزار 6 کیسز رجسٹر کیے گئے اور اب ایف آئی اے کی ٹیم فوج کے خلاف تنقید کرنے والوں کیخلاف بھرپور کارروائیاں کررہی ہے، آئندہ ہفتے مزید لوگوں کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی کارروائیاں اپنی جگہ ہیں، جو جعلسازی کرے ضرور اسے پکڑیں اور سزا دیں لیکن اس بات کو واضح رکھنا چاہئے اور حکومت کو تنقید اور تذلیل میں فرق کرنا ہوگا، تنقید اور توہین میں فرق کرنا ہوگا، تعمیری تنقید اور تنقید کی آڑ میں منفی پروپیگنڈے میں فرق کرنا ہوگا، اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے کارروائی ہونی چاہئے، ایک اہم بات یہ ہے کہ جب مختلف سیاسی رہنما اور صحافی شکایت کرتے تھے کہ کچھ لوگ ہماری تذلیل کرتے ہیں تو سیاسی جماعتیں کہتی تھیں کہ ان کا تعلق ہم سے نہیں ہیں اب جب ان کیخلاف کارروائی ہوئی ہے تو ان کی ملکیت لی جارہی ہے کہ یہ ہمارے لوگ ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ بارہ مئی کی صبح اسلام آباد میں رینجرز نے ایک کارروائی کی جس میں نجی ہاؤسنگ اسکیم پر چھاپہ مارا گیا لیکن اس کارروائی کیلئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، نہ تو ضلعی انتظامیہ سے اجازت لی گئی اور نہ ہی پولیس کو ساتھ لیا گیا، رینجرز کی اس کارروائی پر وزارت داخلہ نے آج وضاحت طلب کرلی ہے، وزارت داخلہ کی جانب سے ڈی جی رینجرز پنجاب کو بھیجے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اگر رینجرز نے اس چھاپے کی وجہ نہ بتائی تو اسے واپس بھیج دیا جائے گا، رینجرز کو پولیس کے بغیر چھاپا مارنے کا اختیار نہیں، قانون کے مطابق چھاپے کیلئے ضلعی انتظامیہ کی منظوری ضروری ہے۔ متاثرہ طالبہ خدیجہ صدیقی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیشن کورٹ میں جب کیس کی سماعت ہوتی تھی تو جن صاحب نے سپریم کورٹ بار سے آپ کو نوٹس دیا ہے وہ اور ان کی پوری ٹیم آکر لمبی لمبی تاریخیں مانگتے تھے، ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ کسی طرح تاریخیں آگے بڑھتی رہیں، انہوں نے ہمیں اس طرح کورٹ میں بلا کر تین مہینے تڑپایا ہے، آخر میں سیشن کورٹ کے محترم جج نے ضمانت منسوخ کردی، ہائیکورٹ میں بھی اس کی ضمانت منسوخ ہوگئی تھی، شاہ حسین اور اس کے والد اگر پروگرام میں آنا چاہتے ہیں تو بالکل آئیں آج میں ان کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھیں، شاہ حسین کے والد کے ساتھ شاہ حسین کو بھی بلایا جائے جس نے مجھ پر حملہ کیا ہے، اگر وہ خود کو معصوم ثابت کرسکتا ہے تو آکر کہے کہ میں نے نہیں کیا، وہ کیوں سامنے نہیں آرہے اور کیوں چھپے ہوئے ہیں۔ خدیجہ صدیقی کاکہناتھا کہ میں عظمیٰ بخاری کو سیلوٹ کرتی ہوں جنہوں نے میرے لئے پنجاب اسمبلی میں اتنی آواز اٹھائی، میں پچھلے پورے سال سے دھکے کھارہی ہوں مگر عظمیٰ بخاری نے جس طرح میرے لئے آواز اٹھائی اور اسمبلی سے واک آؤٹ کیا میں انہیں ان کی بہادری پر سیلوٹ کرتی ہوں، یہ انصاف کی طرف پہلا قدم ہے اور مجھے آگے بھی لوگوں سے بہت امید ہے، عاصمہ جہانگیر سے بھی اپیل کرتی ہوں کہ عورتوں کے حقوق کی کارکن کے طور پر آپ بھی پلیز میری مدد کریں اور آواز اٹھائیں، جبران بھائی سمیت جتنے لوگ بھی سوشل میڈیا پر میری مدد کررہے ہیں میں ان سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ سب لوگ آگے بھی اسی طرح میرا ساتھ دیں، نواز شریف اور عمران خان تو عورتوں کیلئے آواز اٹھاتے ہیں آپ کدھر ہیں پلیز آواز اٹھائیں، میں کیوں اکیلی یہ جنگ لڑرہی ہوں، نواز شریف، مریم نواز کیوں نہیں آرہے ہیں، پلیز آپ اس پر فوری ایکشن لیں تاکہ میں بغیر کسی مشکل کے انصاف حاصل کرسکوں۔ خدیجہ صدیقی کے وکیل علی بھروانا نے کہا کہ میں نے پچھلے مہینے کی بائیس تاریخ کوٹرائل کورٹ کی سماعت کے دوران اپنی پاور آف اٹارنی پیش کی تھی، اس سے پہلے تک میں ہائیکورٹ میں زیرالتوا ضمانت کی منسوخی کی درخواست میں ان کا وکیل تھا، اس میں ہم نے بالکل تاریخیں نہیں لی تھیں، پچھلی تاریخ پر بھی میں ٹرائل کورٹ کو لمبی تاریخ دینے کے بجائے اسی مہینے کی بارہ تیرہ تاریخ رکھنے کا کہہ رہا تھاتاکہ ٹرائل شروع کیا جائے لیکن اس پر دوسری طرف سے وکلاء کی درخواست آئی کہ دستیابی کا مسئلہ ہے، بعد ازاں معلوم ہوا کہ متاثرہ فریق اور ملزم نے ایک ہی سینٹر میں بیٹھ کر پیپرز دینے ہیں جس کی وجہ سے وہ لمبی تاریخ لینا چاہ رہے تھے۔ علی بھروانا نے کہا کہ خدیجہ صدیقی نے تمام تر دباؤ کے باوجود انصاف حاصل کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیا، ایک عدالت نے جس میرٹس پر ضمانت کی درخواست خارج کی دوسری عدالت نے انہی میرٹس پر ضمانت دیدی، جب دوبارہ ضمانت کی منسوخی کیلئے جاتے ہیں تو جج اپنی صوابدید استعمال نہیں کرتا، اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں اسے واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ سے قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست خارج ہوئی اور حقائق پر بہت اچھی آبزرویشن دی گئی، لیکن کسی نئے گراؤنڈ کے بغیر سیشن کے اندر گرفتاری کے بعد ضمانت دیدی گئی، جب ملزم کو ضمانت دی جاتی ہے تو متاثرہ فریق کا مورال ختم ہوجاتا ہے۔ علی بھروانا کا کہنا تھا کہ خدیجہ صدیقی کا کیس اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، اس میں ایک ہی مجرم ہے جس کے حوالے سے تمام شواہد موجود ہیں، مجرم کی موقع پر موجودگی موجود ہے کہیں پر انکار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود مجرم کو ضمانت دیدی جاتی ہے ،جب اسی کورٹ کے پاس ضمانت کی منسوخی کا کیس جاتا ہے جس نے قبل از وقت گرفتاری ضمانت کی درخواست خارج کی ہوتی ہے یہاں چیزوں کا رخ مکمل مڑ جاتا ہے، یہ ساری چیزیں متاثرہ فریق کا مورال ڈاؤن کررہی ہیں۔ سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہم تشدد کا شکار ہر بچی کے ساتھ ہیں، بچیوں کو اپنے ساتھ زیادتی بالکل قبول نہیں کرنی چاہئے، سپریم کورٹ بار کی طرف سے صحافیوں کو لیگل نوٹس دینا بڑی زیادتی ہے، سپریم کورٹ بار کے جس سیکرٹری نے آپ کو لیگل نوٹس بھیجا بار کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ان کیخلاف ایکشن لیا ہے، بار کے ایگزیکٹو نے انہیں لیگل نوٹس بھیجنے کا مینڈیٹ نہیں دیا ہوگا،ہمارے بار نے ایسے سیکرٹری کو چنا یہ ہماری بدقسمتی ہے مگر ہم سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی بچیوں کیخلاف تشدد کا معاملہ ضرور اٹھائیں مگر جب تک اس کیس کا فیصلہ نہ آجائے ہم سائڈ نہیں لے سکتے ہیں، چیف جسٹس اور دیگر ججز شفاف ٹرائل کے حوالے سے بہت حساس ہیں اور کیس پر فیصلہ انہیں دینا ہے،وکیل ایک دوسرے کے دباؤ میں شاید کچھ کریں مگر ایسی بات نہیں کہ وہ آکر وہاں کھڑے ہوجائیں گے، وکلاء میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے کاموں کی وجہ سے ہم شرمندہ ہیں مگر سب کو ایک طرح پیش نہ کیا جائے۔  نمائندہ جیو نیوز زاہد گشکوری نے کہا کہ تحریک انصاف کے تین لوگ تھے جس میں سے ایک شخص کو رہا کردیا گیا ہے جبکہ باقی دو سے سوالات کیے جارہے ہیں، ہماری اطلاعات کے مطابق اس میں دو لوگ پاکستان مسلم لیگ نواز کے میڈیا سیل کے بھی ہیں، ان کو بھی ابھی ایف آئی اے نے سوالات کرنے ہیں، وہ اگلے ہفتے بارہ لوگوں سے سوالات کرنے جارہے ہیں، ہمارے پاس یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایف آئی اے اس وقت بائیس لوگوں کیخلاف تحقیقات کررہی ہے جنہوں نے ریاست کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد ڈالا تھا، اس کے علاوہ چیف جسٹس اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف کچھ لوگوں نے مواد ڈالا تھا جس پر چار لوگوں کیخلاف تحقیقات ہورہی ہے، تین لوگوں نے توہین رسالت کا مواد ڈالا تھا ان کیخلاف بھی ایف آئی اے تحقیقات کررہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ کے سوال تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے لوگوں کیخلاف کس بات پر تحقیقات ہورہی ہے ؟کا جواب دیتے ہوئے زاہد گشکوری کا کہنا تھا کہ وہ پاک فوج کے خلاف ایسا مواد ڈالتے رہے ہیں، یہی انکوائری کمیٹی آئندہ ہفتے لوگوں سے سوالات کرے گی، انہوں نے اکیس لوگوں کی شناخت کی تھی جس میں آٹھ لوگوں سے وہ سوالات کرچکے ہیں، ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایف آئی اے کو گزشتہ پندرہ مہینے میں سوشل میڈیا کی گیار ہزار تریپن شکایات ملی ہیں، ایف آئی اے نے نئے قوانین کے تحت 142 کیسز فائل کیے تھے اس میں ایک کیس کا فیصلہ آیا ہے جس میں ایک شخص نے ایک خاتون کا جعلی فیس بک پیج بنایا تھا ، اس شخص کو ڈیڑھ سال سزا اور دو لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے، سوشل میڈیا پر مواد کیخلاف اتنی زیاہ شکایات آرہی ہیں کہ ان کی capacity کا بھی پرابلم بن رہا ہے۔ نمائندہ جیو نیوز اعزاز سید نے کہا کہ اسلام آباد کی ہاؤسنگ اسکیم سے کچھ حلقے پیسے بھی ہتھیانا چاہتے تھے، ان میں ایک خفیہ ادارے کے کچھ افسروں کا نام بھی شامل ہے، چوہدری نثار نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ رینجرز وزارت داخلہ کے زیرانتظام ہے، ایک اصول طے کیا گیا ہے رینجرز کوئی بھی کارروائی کرے گی تو پولیس اس کے ساتھ ہوگی اور وہ انتظامیہ سے اجازت لے گی لیکن اس مخصوص کیس میں رینجرز نے انٹیلی جنس معلومات تو لیں لیکن پولیس، انتظامیہ اور وزارت داخلہ کو بتانا گوارا نہیں سمجھا، ہماری اطلاعات کے مطابق وزیر داخلہ اپنی وزارت کے ذیلی اداروں جن کے سربراہ کچھ اور اداروں سے آئے ہوئے ہیں ان پر اپنی مکمل عملداری ثابت کرنا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ وزارت داخلہ اور ذیلی اداروں کے اصل باس وہی ہیں اور جو کام بھی اسلام آباد میں ہوگا وہ طے شدہ اصولوں کے مطابق ہوگا، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ اس پر کارروائی بھی کریں گے، اس میں اہم بات یہ ہے کہ جو مراسلہ لکھا گیا ہے وہ وزارت داخلہ کی خاتون جوائنٹ سیکرٹری کی طرف سے ڈی جی رینجرز کو لکھا گیا ہے جو سٹنگ میجر جنرل بھی ہیں، مراسلے کی نقل ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ 
تازہ ترین