جہاد نہیں یہ جنون ہے کہ جہاد کی اخلاقی شرائط ہیں۔ دائمی اور ابدی کہ قرآن کریم کا کوئی فرمان اور اللہ کے آخری رسول کا کوئی ارشاد وقتی، عارضی، سطحی اور مقامی نہیں ہوتا۔ گردش لیل دینار میں وہ دائم برقرار رہتا ہے۔
جہاں دوسروں کی سانس ٹوٹنے لگتی ہے، بھلے شاہ وہاں سے ابتداء کرتا ہے، یہ اسی کا مصرعہ ہے۔
”سچ آکھیاں بھانبھڑ مچدا اے“
سچ بولا جائے تو شعلے بھڑک اٹھتے ہیں، سچ صرف یہ نہیں کہ افغانستان اور اس کے عم زاد قبائلی علاقوں میں فتنوں کا دردازہ امریکی حملے سے کھلا۔ سچ یہ بھی ہے کہ سفاک سوویت یونین کی سرخ افواج نے افغانستان میں ڈھائی سو برس سے چلے آتے، احمد شاہ ابدالی عہد کے عمرانی معاہدے کا تاروپود بکھیر دیا تھا۔ یہ بھی کہ جنگ کے میدان میں ایک عشرے تک خم ٹھونک کر کھڑے رہنے والے افغانی مجاہدین کے رہنما نیا عمرانی معاہدہ تخلیق نہ کرسکے۔ وہ اس علمی اور اخلاقی معیار کو نہ پہنچ سکے جو اجتماعی زندگی کو درکار کم از کم رواداری کے لئے لازم ہوتا ہے۔ اتنی ہی بڑی صداقت یہ بھی ہے کہ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد امریکہ نے افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کی۔ ایسی حکومت جس کا افغان عوام کی امنگوں اور احساسات سے دور کا واسطہ بھی نہ ہو اور یہ کہ اس مرحلے پر اول بینظیر بھٹو اور پھر میاں محمد نواز شریف کی حکومتوں نے کمال درجے کے اخلاقی افلاس کا مظاہرہ کیا۔ یہ بھی کہ نہ صرف امریکہ، روس، یورپی یونین اور ایران بلکہ پاکستانی حکمرانوں نے بھی افغانی عوام کی بجائے اپنے مفادات کو ملحوظ رکھا۔ ان سب نے بھلا دیا کہ دوسروں کی طرح افغان سرزمین پر بسنے والے بھی جیتے جاگتے انسان ہیں اور سب سے زیادہ کڑوا سچ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر جہاد کرنے والے تمام افغان اگرچہ مخلص تھے مگر ان کے رہنما اپنے گروہی اور قبائلی تعصبات سے رہائی نہ پاسکے۔
خانہ جنگی کے خلاف طالبان ایک ردعمل تھے مگر ردعمل ہی۔ وہ قدامت پرست مذہبی لوگ تھے مگر اپنے عصر کے حقائق سے ناآشنا۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے لے کر ڈاکٹر جاوید اقبال تک اور جنرل حمید گل سے لے کر قاضی حسین احمد تک، سبھی نے انکی مدد کی مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ جب تک ملا عمر اقتدار میں رہے، یکطرفہ تائید کے باوجود قاضی حسین احمد، طورخم کے اس پار نہ جاسکتے تھے۔ 2000ء میں اسامہ کے کیمپ پر حملے کے بعد افغان سفارتکاروں نے دوسروں کے علاوہ اس ناچیز سے رابطہ کیا تو انہیں پشاور میں امریکہ کے خلاف کل جماعتی کانفرنس کا مشورہ دیا گیا۔ وہ دوسروں کو مدعو کرنے پر آمادہ تھے مگر حیرت کی انتہا نہ رہی جب افغانی سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری غیاث فوزی نے عمران خان اور قاضی حسین احمد کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ تعجب کے ساتھ، میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا اعانت قبول کرنے پر بھی وہ شرائط لگائیں گے۔ قاضی حسین احمد کے بارے میں، ان کا ارشاد یہ تھا کہ امیرالمومنین اس کی اجازت عطا نہ کریں گے اور عمران خان کے بارے میں یہ کہا تھا کہ وہ گولڈ سمتھ کا داماد ہے۔ میں نے کہا۔ فوزی صاحب! گولڈ سمتھ کا داماد، امریکی استعمار سے پاکستانی کی رہائی چاہتا ہے اور وہ میچ فکس کرنے والا آدمی نہیں۔ ایک دوست کے ہاں، ان کی ملاقات کا اہتمام کیا کہ اس کا گھر سفارت خانے اور عمران خان کی رہائش کے وسط میں واقع تھا۔ عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اس کی پارٹی اعتدال پسند ہے مگر وہ افغانستان پر افغانوں کے حق حکمرانی کی حمایت کرے گا۔ اور مسلسل کرتا رہا مگر قاضی حسین احمد سے بات کرنے پر وہ آمادہ نہ ہوئے۔ کل جماعتی کانفرنس دھری کی دھری رہ گئی۔ اعتدال و احتیاط کہاں، حکمت و دانائی کہاں فقط زعم تقویٰ، فقط زعم تقویٰ۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایک بزرگ نے مجھ سے کہا کہ کیا تم افغان سفارت خانے کی کچھ مدد کرسکتے ہو کہ اخبارات کیلئے وہ اپنا موقف مرتب کرلیا کریں۔ دو بار میں پہلے سے وقت لے کر سفیر افغانستان ملا ضعیف کی خدمت میں حاضر ہوا مگر دونوں بار ان کے پاس وقت نہ تھا۔ دونوں بار انہوں نے مجھ سے صرف دو لفظ کہے۔ ”صبر کرو“ ان کے ایک نائب نے ایک بار اس پر اضافہ کیا۔ ”ہم جہاد میں ہیں اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ ہماری مدد کرے۔“ گلبدین حکمت یار تہران میں، تیز روشنیوں تلے، معلوم نہیں کتنے خطرات مول لے کر طالبان کی مدد کرتے رہے مگر طالبان کا تقاضا برقرار رہا۔ ”بیعت کرو، بیعت“ آدمیت کی تاریخ نے ایسے حکمران کب دیکھے ہوں گے کہ حالت جنگ میں اگر ان کی مدد کرنا چاہو، تب بھی شرائط ان کی۔ حکمت نہ علم، فقط اصرار، فقط اپنی عظمت پر اصرار۔ جولائی 1992ء میں کا بل کے ایک ہوٹل کے جنرل منیجر نے مجھ سے کہا۔ ”ایک طرح کے پاگل چلے گئے اور دوسری طرح کے آگئے۔“جنرل پرویز مشرف ذمہ دار ہیں۔ 4/ مئی سے کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں پڑا ہوں۔ سارا دن اخبار نویسوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں سے اس شخص کے کارنامے سنتا ہوں، جو ”ڈرتا ورتا“ کبھی نہ تھا مگر جس نے پاکستان کو امریکہ کے قدموں میں ڈال دیا۔ جس نے بلوچستان کی روح پر وہ زخم لگائے کہ مندمل کرنے کو مرحم بنالی جائے تب بھی سالہا سال درکار ہوں گے۔ سچ میں ایک دن جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بریفنگ کیلئے راولپنڈی گیا اور ایک مصرعہ دہراتا ہوا لوٹ آیا۔
کھل گئے زخم کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے
عمران خان اور سید منور حسن نے سچ کہا کہ کوئی فوج اپنے عوام سے برسرپیکار نہیں ہوا کرتی مگر سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ سوات کے ”مجاہدین اسلام“ نے کوئی راہ باقی رہنے دی تھی؟ نظام عدل قبول، قاضیوں کی من پسند تقرریاں قبول، وکلاء کی بیروزگاری قبول، مزید کیا حکم ہے میرے آقا؟ فرمایا۔ ”جمہوریت کفر، عدالتیں کفر، آئین کفر، قرآن کریم قرار دیتا ہے۔ وعدہ پورا کیا کرو کہ روز جزا وعدے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ انہوں نے معاہدہ کیا اور باہم پیغام بھیجے کہ دکھاوے کیلئے ادھر ادھر ٹل جاؤ۔ ایسی ڈھٹائی اور ایسی سینہ زوری۔ محض فقہی اختلاف پر انہوں نے اپنے حریف کی لاش قبر سے نکالی اور سولی پر لٹکادی۔ قوم کے خون پسینے سے بنائے گئے تعلیمی ادارے بموں سے اڑا دیئے اس پر بھی انکی بات مان لی گئی تو مطالبات کی ایک نئی فہرست وجود میں آگئی اور بچے جننے لگی۔ انسانوں کے درمیان تنازعات ہوتے ہیں اور ساری دنیا میں انہیں طے کرنے کا ایک ہی قرینہ ہے۔ بات چیت لیکن اگر معاہدے کے باوجود اعلان کے باوجود ایک حریف من مانی پر تلا رہے؟ اللہ کی ”آخری کتاب کیا کہتی ہے؟“ کہ ان میں صلح کرادو، پھر اگر ایک فریق انحراف کرے تو سب مل کر اس سے لڑو۔ اس خدا کی قسم، جس کے قبضہ قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے، مولانا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قبر خود کھودی ہے اور وہی سواتی عوام کی اذیت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ حد ہوگئی گھر کے دروازے پر ڈاکو اسلحہ تانے کھڑے ہیں اور گھر میں ایک ایسا بھی ہے جس نے خاندان ہی کو یرغمال بنالیا کہ ڈاکوؤں کا مقابلہ اس کی مرضی سے ہوگا۔ سچائی، صبر اور حکمت سے نہیں، جیسا کہ انسانوں کو انکے پروردگار نے حکم دیا ہے بلکہ جنون سے۔بجا کہ مجرم امریکہ ہے اور اسکے کارندے۔ بجا کہ عوام کی عدل سے محرومی اور حکمران طبقے کی بے حسی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسمیں ہر گز کوئی کلام نہیں کہ گیدڑوں کی ایک قابل ذکر تعداد امریکہ کی دریوزہ در گراور بدعنوان ہے مگر اسکا یہ مطلب کیسے ہوا کہ بیگناہوں کو قتل کیا جائے۔ پاکستان کے امریکہ مخالف اور افغانیوں کی آزادی کے حامی عوام کا جرم کیا ہے؟
پورا سچ کوئی نہیں بولتا، صرف اللہ کی کتاب اور اس کا سچا رسول۔ اللہ کے آخری رسول نے تیرہ برس تک طعنے سنے، گالیاں کھائیں، اذیتیں برداشت کیں۔ دس برس تک مدینہ منورہ میں یلغار پہ یلغار کا سامنا کیا۔ بغض وعناد اور نفرت کی آخری حد کا۔ مکہ میں فاتحانہ قدم رکھا تو یہ کہا۔ ”آج تم سے کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ امان ہے۔ ابو سفیان کے گھر میں، اپنے کواڑ بند کرنے والے کو اور حرم میں پناہ لینے والے کو۔ اللہ اور اس کے پیغمبر کو ماننے والے یہ کیسے لوگ ہیں کہ ان سے پناہ کی کوئی صورت ہی نہیں۔ ان کی ساری بات مان لو، یہ تب بھی نہیں مانتے۔ نہیں بخدا، جہاد نہیں، یہ جنون ہے کہ جہاد کی اخلاقی شرائط ہیں۔ دائمی اور ابدی کہ قرآن کریم کا کوئی فرمان، اللہ کے آخری رسول کا کوئی ارشاد وقتی، عارضی، سطحی اور مقامی نہیں ہوتا۔