ان کالموں میں ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کے حکمرانوں نے آزاد کشمیر کوجنت نظیر بنانے کی ہلکی سی کوشش بھی کی ہوتی تو کشمیری حریت پسندوں کوتحریک آزادی کشمیر چلانے کی ضرورت نہیں تھی جس میں کم از کم ساٹھ ہزارحریت پسندوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور پاکستان کو اپنی ضرورت اور توفیق سے زیادہ فوجی طاقت اور دفاعی بجٹ برداشت کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے پاکستان کی قومی زندگی کے باسٹھ سالوں میں سے 35سالوں کی براہ راست فوجی حکومتوں کے صدمے بھی برداشت کرنے پڑے اور ان فوجی حکومتوں کے دوران برصغیر پاک و ہند کو کارگل کے احمقانہ معرکہ سمیت چار خون آشام جنگوں کی تباہی اور بربادی سے گزرنا پڑا اور ملک کا ایک بڑا حصہ ملک سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک دنیا کی پانچویں مسلمان مملکت بن کر رہ گیا۔ مشرق بعید سے کندھے ملانے والا ملک واہگہ کی سرحد تک محدود ہو کررہ گیا۔ دنیا کے مقروض ترین ملک کوا یٹمی طاقت میں بدلنے کے اخراجات برداشت کرنے پڑے اور وہ اپنے لوگوں کے اصل مسائل میں سے کوئی ایک مسئلہ حل کرنے کے قابل نہ ہوسکا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان کے حکمرانوں نے بھی گزشتہ باسٹھ سالوں کے دوران اپنے مقبوضہ کشمیرکو ”سورگ“ کا نمونہ بنانے کی کوشش کی ہوتی توپاکستان کے حکمرانوں کے لئے ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی آزاد کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتا۔
یہی بات ”فاٹا“ کے علاقوں اور دوسرے قبائلی علاقوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے جو سرحد یا پختون خواہ حکومت کے زیر انتظام فوجی ایکشن کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ سوچنے اورسمجھنے اور تسلیم کرنے والی بات ہے کہ قیامپاکستان کے بعد کی آدھی صدی کے دوران اگر ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور پالیسی سازوں نے عرف عام میں ”علاقہ غیر“کہلانے والے اس علاقے کو اپنا علاقہ سمجھا ہوتا تو آج اس علاقے میں فوجی ایکشن کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ہماری سیاسی جماعتوں، افواج اور ہماری سول اور فوجی حکومتوں نے ان انتہائی پسماندہ علاقوں کے بے قصورمگر بدنصیب لوگوں کی پسماندگی، غربت، ناداری اور جہالت دورکرنے، ان کی حالت بہتر بنانے، ان کی معیشت اور معاشرت کو سنوارنے، ان کے روزگار کے وسائل کو بڑھانے اورپھیلانے، ان کی تعلیم اور صحت افزائی کے انتظامات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہوتی اور ان کے ذرائع نقل و حمل کو پتھروں کے زمانے سے باہر لانے کے سلسلے میں اپنا کوئی فرض پورا کیا ہوتا تو آج یہ خطہ سیر و سیاحت کا مرکز ہونے کے علاوہ امن و امان کا گہوارہ بھی ہوتا اور ملک کے خوشحال علاقوں میں شمار کیا جاتا۔
گزشتہ باسٹھ سالوں میں ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں کو اگر پاکستان کے پسماندہ قبائلی علاقوں کو تہذیب و تمدن کی روشنی میں لانے اور علم وآگہی تک رسائی دلانے کی فرصت مل سکتی، عالمی دہشت گردوں اور مذہبی بنیاد پرستوں کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے انکی جہالت، پسماندگی اور غربت سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی تھی اور وہ انہیں تخریبی کارروائیوں اور ملک دشمن سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے میں یقینی طور پر ناکام رہتے۔
نو آبادیاتی دورکے ایک انگریز مفکر نے کہا تھا کہ عوام دشمن جرائم پیشہ لوگوں کے لئے سب سے زیادہ کم خرچ اور سب سے زیادہ محفوظ قید ان کے اپنے گھروں کی چار دیواری ہوتی ہے۔ فرنگی مفکر کا مشورہ تھا کہ لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ان کو انکے اپنے گھروں کی چار دیواریوں کے اندر قید کر دیا جائے۔ مطلب یہ کہ لوگوں کو گھریلو رہائشوں کی سہولتیں فراہم کی جائیں تووہ معاشرتی نظم و ضبط کی تحویل میں آجاتے ہیں اور تعلیم اور صحت کی ضروریات کی پابندی میں بھی آجاتے ہیں۔
یہی بات مثبت انداز میں سوچی جائے تو پتہ چلے گا کہ ”فاٹا“ کے علاقوں اور دیگر قبائلی علاقوں کے لوگوں کو اگر سیمنٹ سازی کے کارخانوں اور زراعت کی بنیاد پر چلنے والی صنعتوں کی سہولتیں فراہم کی جائیں توان کی معیشت اور معاشرت میں انقلابی تبدیلیاں آسکتی تھیں جو ان کے کردار اور افکار پر بھی اثر انداز ہوسکتی تھیں۔ درختوں اور جنگلوں کی موجودگی میں فرنیچر کی صنعت بھی اس علاقے کی بہت سی محرومیوں کا ازالہ کر سکتی تھی بلکہ ان سہولتوں کی وجہ سے ”فاٹا“ اور دیگر قبائلی علاقوں میں ملک کے دیگر علاقوں کے ہنرمندوں اور محنت کشوں کے روزگار کے مزید وسائل کھل سکتے تھے اور یہ علاقے ملک کی ایک بڑی مزدور اور ہنر مندوں کی منڈی بن سکتا تھا۔
بلاشبہ کسی بھی مہذب علاقے میں فوجی ایکشن جیسا ا نتہائی اقدام نہیں ہونا چاہئے مگر اس علاقے کو فوجی ایکشن سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی بہت سے معاشی اور معاشرتی منصوبوں پرعملدرآمد کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور ہمارے حکمرانوں نے گزشتہ باسٹھ سالوں میں ان علاقوں کی یہ ضرورت پوری کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے۔