• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ نے 2017-18کا جو بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے وہ بنیادی طور پر ان ہی خطوط پر وضع کیا گیا ہے جن کے نتیجے میں گزشتہ چار برسوں سے معیشت کی شرح نمو کے حکومت کے خود اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے، برآمدات 2014سے مسلسل گرتی رہیں اور ٹیکسوں کی وصولی و بجٹ خسارے سمیت متعدد معاشی اہداف عملاً حاصل نہیں ہوسکے۔ بدقسمتی سے وہ قوانین اور پالیسیاں اگلے مالی سال میں بھی برقرار رکھی گئی ہیں جن کے تحت ٹیکس چوری اور بدعنوانی سے کمائی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر قانونی تحفظ حاصل کرنا ممکن رہے گا۔ بجٹ تقریر میں انکم ٹیکس کی مدمیں ادائیگی نہ کرنے اور انکم ٹیکس کے سالانہ گوشوارے داخل نہ کرنے والا شخص بھی پاکستان میں بدستور کروڑوں روپے کی جائیداد خرید سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا لیکن طاقتور طبقوں کے دبائو کی وجہ سے معیشت کو دستاویزی نہیں بنایا جا رہا چنانچہ دہشت گردوں کو بھی اپنی کارروائیوں کےلئے بدستور رقوم مل رہی ہیں۔ اس حقیقت کا اب ادراک کرنا ہو گا کہ نائن الیون سے اب تک قومی معیشت کو دس ہزار ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔
اس حقیقت کو بھی اب تسلیم کرنا ہو گا کہ معیشت کے شعبے میں جو خرابیاں ہیں، ان کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ چاروں صوبوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم و صحت سمیت متعدد شعبے صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں اور ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے بعد صوبوں کو وفاق سے اضافی رقوم بھی مل رہی ہیں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ چاروں صوبے بھی طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس نافذ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ چاروں صوبے جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت چاروں صوبوں کی معاونت سے ٹیکس ایمنسٹی برائے پراپرٹی اگلے مالی سال میں بھی جاری رکھے گی ۔ اس تباہ کن اسکیم کی وجہ سے لوٹی ہوئی اور ناجائز دولت بڑے پیمانے پر جائیداد کی خریداری کے لئے بھی استعمال ہو رہی ہے۔ اور ناجائز دولت کو ملک میں محفوظ جنت فراہم کر دی گئی ہے۔ حکومت ’’ملکی پاناماز‘‘ پر بھی ہاتھ ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہے مگر پاناما لیکس کے ضمن میں ہنگامہ آرائی بدستور جاری ہے۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009(جس کی توثیق موجودہ حکومت کےدور میں جاری کردہ پہلے اکنامک سروے میں بھی کی گئی تھی) سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے چاروں صوبے اب بھی تعلیم کی مد میں تقریبا 1350ارب روپے سالانہ کم مختص کر رہے ہیں ۔وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں ایک اجلاس میں وژن 2025‘‘ کے نام سے ایک شاندار حکمت عملی مرتب کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 2017-18میں معیشت کی شرح نمو کا ہدف 8فیصد سے زائد ہو گا۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں اس مالی سال کی شرح نمو کا ہدف 8فیصد سے کم کرکے 6فیصد کر دیا ہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل نواز حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ 2017-18میں برآمدات کا ہدف35ارب ڈالر ہو گا ۔اب اس بات کا عندیہ مل رہا ہے کہ یہ ہدف کم کر کے 25ارب ڈالر کر دیا جائے گا۔ وزیرخزانہ نے گزشتہ چار برسوں میں ٹیکسوں کی وصولی کے ضمن میں شاندار کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ 2017-18میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی 13.7فیصد رہے گی۔ یہ ہدف مایوس کن حد تک کم ہے کیونکہ 1995-96میں یہ تناسب 15.6فیصد رہا تھا۔ اگر بجٹ مسلم لیگ (ن) کے منشور کے مطابق بنایا جاتا تو ایف بی آر کے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف7000ارب روپے سے زائد رکھا جا سکتا تھا جبکہ 2017-18میں صرف4013 ارب روپے کے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے۔
وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر میں یہ خوش کن دعویٰ کیا ہے کہ 2023تک پاکستان کی فی کس آمدنی دگنی ہو جائے گی اور ہر بچہ اسکول جا رہا ہو گا۔ یہ عزائم پورے ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ممتاز ادارے پروائس واٹر ہائوس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستان 189ملکوں کی درجہ بندی میں 148ویں نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ کے دو تکلیف دہ نکات اور بھی ہیں ۔اول، 2020میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستان کی درجہ بندی مزید گر جائے گی اور وہ 151ویں نمبر پر جائے گا اور دوم اگرچہ 2017میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان سے کم ہے مگر 2020میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان سے زیادہ ہو جائے گی۔ وطن عزیز میں تقریباً 26ملین بچے اسکول نہیں جا رہے۔ پاکستان تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کے تناسب سے جو رقوم خرچ کر رہا ہے وہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہیں بلکہ افریقا کے بہت سے ملکوں کے مقابلے میں کم ہیں، چنانچہ خدشہ ہے کہ 2023تک تو کجا2060تک بھی ہر بچہ اسکول نہیں جا رہا ہو گا۔
وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں پر ائس واٹر ہائوس کی رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے فخریہ کہا ہے کہ 2030تک پاکستان دنیا کی 20ویں بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ قیمت خرید کی مسابقت کے لحاظ سے پاکستان پہلے ہی دنیا کی24ویں بڑی معیشت ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی 200ملین ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2030تک کم آبادی والے چار ملک پاکستان سے نیچے چلے جائیں گے ،ان ملکوں میں تھائی لینڈ (آبادی68ملین) پولینڈ (آبادی 39ملین) اور آسٹریلیا (آبادی 25ملین) شامل ہیں۔چوتھا ملک نائجیریا جس کی آبادی پاکستان سے کم ہے ،21ویں بڑی معیشت ہو گا جبکہ پاکستان کا نمبر20واں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ کوئی کامیابی نہیں ہے کیونکہ 2030میں100سے زائد ملکوں کی فی کس آمدنی پاکستان سے زائد ہو گی۔
قائداعظم نے بچتیں بڑھانےکی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی حاکمیت ختم ہونے کی وجوہات میں مغل بادشاہوں کا اپنے وسائل کے اندر گزارا نہ کرنا اور قرضے لیتے چلے جانا شامل تھا۔ ہم آج یہی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے 2017-18 کیلئے جن معاشی اہداف کا اعلان کیا ہے وہ مایوس کن حد تک کم ہیں اور ان میں قومی بچتوں کے ہدف کا ذکر ہی نہیں ہے۔ حالانکہ نواز شریف صاحب نے اپنے پچھلے دور حکومت میں خود انحصاری کے حصول کے لئے قومی بچتوں میں اضافے کو بنیادی شرط قرار دیا تھا۔ مختلف حکومتوں کی غیر دانشمندانہ معاشی پالیسیوں اور بینکاری کے استحصالی نظام کی وجہ سے پاکستان میں قومی بچتوں کی شرح جو مالی سال 2003میں 20.3فیصد تھی اب گرکر 13.1فیصد رہ گئی ہے جبکہ بھارت میں بچتوں کی شرح اس سے دگنی ہے۔ اب بھی اگر مسلم لیگ(ن) کے انتخابی منشور کے مطابق بجٹ تجاویز میں تبدیلیاں کی جائیں تو پاکستان 8-10فیصد سالانہ کے حساب سے معیشت کی شرح نمو حاصل کر سکتا ہے۔



.
تازہ ترین