• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسے دور میں جب خطے کے متعدد اہم ملک چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں کی قیادت میں اجتماعی معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے سرگرم ہیں اور اس مقصد کیلئے علاقائی امن اور استحکام کے یقینی بنائے جانے کو ناگزیر تصور کرتے ہیں جس کا بھرپور اظہار شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں ہوا، بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت قطعی عاقبت نااندیشانہ طور پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے اور جنگ کی شعلوں کو ہوادینے پر تلی ہوئی ہے۔ کشمیر یوں کی تحریک آزادی اور اسے کچلنے کیلئے روا رکھے گئے بہیمانہ مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی خاطر لائن آف کنٹرول پر بلاجواز اشتعال انگیزی بھارتی فوجیوں کا روز کا معمول ہے جبکہ مودی حکومت اور بھارت کے عسکری رہنما آئے دن پاکستان کے خلاف جنگ کی دھمکیوں پر مبنی بیان بازی کا شغل بھی جاری رکھتے ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف جنرل روات نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں کسی ملک کا نام لیے بغیر دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج ایک نہیں بیک وقت ڈھائی محاذوں پر جنگ کرنے کیلئے تیار ہے۔بھارت کے یہ عزائم اس کی جنگی تیاریوں اور ہتھیاروں کے انبار لگانے کی حکمت عملی سے پوری طرح عیاں ہیں۔ اس ماحول میں پاکستان کی جانب سے جنگ کی اس مخفی دھمکی کا مناسب اور دوٹوک جواب دیا جاتا ضروری تھا اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز لائن آف کنٹرول کے دورے کے موقع پر اس ضرورت کی بخوبی تکمیل کردی ہے۔ اپنے خطاب میں جنرل باجوہ نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ ہم دفاع اور سلامتی کے حوالے سے ملک کو درپیش تمام چیلنجوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور تمام خطرات سے نمٹنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں خواہ محاذ کوئی بھی ہو ۔ آرمی چیف نے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف موجود کشمیریوں کے عزم اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں حق خود ارادی کیلئے پاکستان کی جانب سے مکمل حمایت جاری رکھے جانے کی یقین دہانی کرائی۔ تاہم جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جاری یہ کشیدگی جس کے کسی بھی وقت مکمل جنگ میں بدل جانے کا حقیقی خطرہ موجود ہے، دونوں ملکوں سمیت کسی کے بھی مفاد میں نہیں اور جنگ کی صورت میں دونوں جانب ناقابل تصور تباہی کا ہونا یقینی ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ پرامن ہمسائیگی کے نظریے کا مخلص اور پرجوش علم بردار ہے اور بھارت سے کشمیر سمیت تمام تنازعات نیک نیتی پر مبنی بامقصد مذاکرات سے حل کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ چین کے ساتھ ’’ایک پٹی ایک شاہراہ‘‘ کے انقلابی تصور کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستان کی سرگرم شرکت نے اس کیلئے خطے میں امن و استحکام کو ماضی کے ہر دور سے زیادہ ضروری بنادیا ہے جبکہ بھارتی قیادت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے مسلسل فرار کی راہ اختیار کررکھی ہے ، اس کیلئے اس کی جانب سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کے ذریعے جواز گھڑے جاتے ہیں جن کا کوئی ٹھوس ثبوت کبھی سامنے نہیں آتا۔ تاہم اب جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے مکمل رکن بن گئے ہیں، بھارتی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان اب خطے میں نمایاں اہمیت کا حامل ملک ہے، پاکستان کو تنہا کرنے کے وہ تمام دعوے جو چند ماہ پہلے تک وزیر اعظم مودی ببانگ دہل کرتے رہے، خاک میں مل چکے ہیں۔ چین میں پچھلے مہینے ایک پٹی ایک شاہراہ کے حوالے سے ایک سو تیس ملکوں کی شرکت کے ساتھ ہونے والی سربراہ کانفرنس میں اور اب شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس منعقدہ قازقستان میں پاکستان کی غیرمعمولی پذیرائی اس امر کا کھلا ثبوت ہے۔ لہٰذا بھارت کیلئے ہوشمندی کا راستہ یہی ہے کہ وہ پاکستان دشمنی کی لاحاصل حکمت عملی ترک کرکے خطے میں جاری امن واستحکام کی اجتماعی کوششوں کاحصہ بن جائے اور یوں خط غربت سے نیچے جینے والی اپنی دوتہائی آبادی کی زندگیوں کو بھی آسان بنانے کا اہتمام کرے۔

تازہ ترین