یہ ان دنوں کی بات ہے جب کرکٹ گلی کوچوں کا کھیل نہیں بنا تھا، ملک کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں، دیہی علاقوں اور دور دراز بستیوں میں فٹ بال کھیلی جاتی تھی۔ لیاری کو فٹ بال کے شائقین ایشیا کا برازیل کہتے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب برصغیر کے گلی کوچوں میں کیپٹن محمد عمر، کیپٹن حسین کلر، کیپٹن موسیٰ غازی، کیپٹن تراب علی، کیپٹن تاج محمد، کیپٹن ابراہیم کیماڑی والا اور کیپٹن لالہ میر داد کے نام کا ڈنکا بجتا تھا ۔ یہ کھلاڑی فلمی ہیروؤں کی طرح مقبول تھے۔ بھارت میں دلیپ کمار لیاری کے کھلاڑیوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کرتے تھے۔ ان کھلاڑیوں کے اعزاز میں موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں بڑے بڑے فنکار ان کھلاڑیوں کی نقلیں اتارا کرتے تھے۔
انہی دنوں میری آنکھوں نے دو سانحے دیکھے تھے۔ ایک سانحہ بہت بڑا تھا، دوسرے سانحہ کو آپ معمولی واقعہ کہہ سکتے ہیں۔ بہت بڑا سانحہ تو یہ تھا کہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہوا جبکہ انہی دنوں دوسرا واقعہ ٹی وی کے ایک ٹاک شو کے دوران پیش آیا۔ اس ٹاک شو کے مہمانوں میں فٹ بال کے قومی کھلاڑی تراب علی بھی شامل تھے۔ اس ٹاک شو کے دوران صرف ایک مہمان سے کہا گیا کہ وہ اپنی نشست خالی کر دیں۔ اور وہ مہمان تراب علی تھے۔اور اسی روز ہی مجھے نو آبادیاتی اور جدید نو آبادیاتی نظام کا فرق سمجھ میں آیا تھا۔ کہاں وہ زمانہ تھا جب نئی دہلی کے فٹ بال گراؤنڈ میں صدر جمہوریہ ہند راجندر پرشاد ہمارے کھلاڑیوں کا میچ دیکھتے تھے اور ان کے گلے میں میڈل ڈال کر ان کی توقیر بڑھاتے تھے اور کہاں یہ وقت کہ ایک قومی ہیرو سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی نشست خالی کر دے ۔
لیاری کے لوگوں نے دو عشق کئے، ان کا سیاسی عشق ذوالفقار علی بھٹو سے اور جمالیاتی عشق فٹ بال سے رہا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کو 30 سال گزر گئے مگر لیاری کی کوئی ایک گلی بھی ایسی نہیں جہاں ذوالفقار علی بھٹو موجود نہ ہو اور ادھر کیپٹن عمر، حسین کلر، موسیٰ غازی اور نہ جانے دوسرے کیسے کیسے ہیرے اس دنیا کو چھوڑ گئے مگر فٹ بال کی روح اب بھی لیاری کی گلیوں سے ماتم کرتی ہوئی گزرتی ہے توزندہ لوگوں کی روحیں لرز جاتی ہیں ۔ ابھی چند روز پہلے میں نے فیصل صالح حیات کو یہ کہتے سنا کہ کون احمد جان، میں تو کسی احمد جان کو نہیں جانتا، شاہ جی ! آپ شاہ جیو نہ ہیں، احمد جان آپ کے کسی مرید کا نام نہیں، وہ فیفا ریفری ہے ، وہ فٹ بال کی عالمی فیڈریشن کے زیر انتظام میچوں کی نگرانی کرتا رہا ہے۔ میں نے کھیلوں کے بین الاقوامی چینلوں پر تماش بینوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے فٹ بال کے میدانوں میں احمد جان کو اپنی سیٹی کی آواز پر کھلاڑیوں میں انصاف بانٹتے ہوئے دیکھا ہے ۔ آپ تو نیب کے نابینا منصفوں سے من پسند انصاف لیتے رہے ، آپ کو کیا پتہ کہ احمد جان کون اور فیفا ریفری کیا۔آپ تو یہ بھی بھول گئے کہ آپ نے ابھی چند ماہ پہلے احمد جان کو فیفا ریفری کے منصب سے معطل کیا اور ان پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔ احمد جان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کینسر کے مرض میں مبتلا اور فالج زدہ قومی ہیروؤں کی خبر گیری کیلئے مظاہرہ کیا تھا اور یوں بھی فٹ بال کی عالمی فیڈریشن کے کسی بھی ریفری کو معطل کرنے والے آپ ہیں کون۔ آپ تو محض آصف علی زرداری کی نظر عنایت سے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر ہیں جسے عالمی فٹ بال فیڈریشن اس کھیل کے فروغ کیلئے پانچ لاکھ ڈالر سالانہ ادا کرتی ہے اور آپ نے کھیل کو ایسا فروغ دیا کہ ہماری خواتین کی ہاکی ٹیم ایران کی خواتین کی ہاکی ٹیم سے 22 صفر سے ہار گئی۔
اب کون جانتا ہے کہ فٹ بال کی دنیا کے چمکتے ستارے کس حال میں ہیں، کیپٹن قادر بخش کس بیماری میں مبتلا ہے ، کیپٹن عابد غازی کو کیا مرض لاحق ہے ، کیپٹن عبدالغفور مجنا کو کس عارضے نے گھیرا ہے ، اسمعیل روسو کو کیا ہوا، کیپٹن لال محمد کس طرح بستر علالت پر ایک ایک گھڑی کو گن گن کر کاٹ رہا ہے ۔ کسی کو کیا پتہ کہ فٹ بال کا رسول بخش کس حالت میں ہے ۔ کسے معلوم ہے کہ کیپٹن عبدالستار جبل کس کسمپرسی میں کینسر سے اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ ریفری تو گراؤنڈ میں بڑا ہوتا ہے اور گراؤنڈ سے باہر بھی وہ کھلاڑیوں کا باپ ہوتا ہے ۔ لیاری عاشقوں کی بستی ہے اور عاشقوں کی اس بستی میں فٹ بال کے اتنے عاشق بیمار پڑے ہوں تواحمد جان کیسے خاموش رہ سکتا ہے ۔ ریفری کیوں کر چپ رہ سکتا ہے، وہ اپنے اندر کے انسان کو کیسے سلا کر چپ چاپ بیٹھ سکتا ہے اور احمدجان تو مجرم ہے اس نے بیمار کھاڑیوں کے علاج کیلئے مظاہرہ کیا پھر اس نے ماں کی طرح جس گراؤنڈ کی نگرانی کی اس گراؤنڈ پر قومی ٹورنامنٹ کھیلنے والی ٹیموں کو میچ کھیلنے سے منع کر دیا گیا ۔لیاری سے بھٹو کو چھینا گیا تھا اب لیاری سے فٹبال چھینی جارہی ہے ، اس مرتبہ لیاری والوں نے کے ایم سی فٹبال گراؤنڈ میں کھلاڑیوں کو ایکشن میں نہیں دیکھا۔ یہ گراؤنڈ ملک کا سب سے خوبصورت گر اؤنڈ ہے مگر یہاں فٹ بال میچ نہیں ہو سکتا کیونکہ ملک پر پیپلز پارٹی کا راج ہے، پیپلز پارٹی کی مجبوریاں ہیں، مجبوریاں کیا مہجوریاں ہیں، تب تک آپ انتظار کریں۔ ہاں دیکھنا !قومی ہیروؤں سے کہنا کہ تم کل تک جس آس پر زندہ رہے، آگے بھی اسی آس پر زندہ رہنا، ہو سکتا ہے بھٹو پھر آجائے، ہو سکتا ہے فٹ بال کا گراؤنڈ پھر آباد ہو جائے۔ہوسکتا ہے کسی کو تمہارے علاج کا خیال آہی جائے۔
موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو آخر اپنا ہے