• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت تک کسی کے مقدر پر تبصرہ نہ کرو جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لو ۔آپ کو یاد ہو گا ’’پاناما‘‘ کے آغاز پر میں نے لکھا بھی تھا اور بار بار کہا بھی کہ ’’پاناما‘‘ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی تاریخ کا دوسرا اہم سنگ میل ہو گا ۔سقوط ڈھاکہ نے اس ملک کا جغرافیہ تبدیل کیا تھا اور شاید پاناما کیس اس ملک کی سمت اور کلچر تبدیل کر دے ۔وزیر اعظم پیش ہو گئے یا طلب کئے گئے کہ دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں تھا، اس بحث میں پڑے بغیر اس کیس سے جڑی چند دلچسپ باتوں پر بات کرتے ہیں ۔پہلی بات جو بار بار کی جا رہی ہے اور بار بار مسترد کئے جانے والی ہے کہ ’’تین نسلوں کا حساب ہو رہا ہے ‘‘تو عرض ہے حضور ! کیوں دن دیہاڑے آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔احتساب صرف ایک عدد خالصتاً سیاسی نسل کا ہو رہا ہے، باقی دو تو تکنیکی ضروریات کے تحت شمولیت کا شرف حاصل کر رہی ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے مشرف والے احتساب کا تو وہ ایک ’’برادر ‘‘ اسلامی ملک کی بھینٹ چڑھا ورنہ سرور پیلس بھجوائے ہی نہ جا سکتے ۔ڈھنڈورا پیٹا جا رہاہے ’’تاریخ رقم ہو گئی ‘‘ تو غور کریں کہ ابھی ایڈوانس دیباچہ لکھا جا رہا ہے، تاریخ ابھی رقم ہونی ہے جو کم از کم میرے نزدیک ’’انہونی ‘‘ سے کم نہ ہو گی۔ ہونی کیا اور انہونی کیاجو ہونا ہو، ہو جاتا ہےجو ملنا ہے مل کے رہے گاجو کھونا ہو، کھو جاتا ہےکمال یہ کہ ایک طرف تاریخ رقم کرنے کا دعویٰ اور دوسری طرف اسی ’’تاریخی پراسیس‘‘ کو پرچیاں سامنے رکھ کر ’’پتلی تماشہ‘‘ جیسی توہین آمیز اصطلاح استعمال کر رہے ہیں اور یاد دلا رہے ہیں کہ عوامی جے آئی ٹی اور عدالت بھی لگنے والی ہے تو کیا نہیں جانتے کہ آئین عوام کی امنگوں، خوابوں ، خواہشوں کا عطر ہوتا ہے اور آئینی ادارے اسی عطر سے مزید کشید کیا گیا عطر ہوتے ہیں اور اگر یہ غلط ہے تو لپیٹو ان سب کو اور ہر مسئلہ اور معاملہ پر 20کروڑ عوام کی عدالت پر انحصار کرو ورنہ یاد رکھو یہ ادارے عوام ہی کا عکس ہیں جنہیں کبھی ’’لوہے کے چنے‘‘ یاد دلائے جاتے ہیں، کبھی ان کو زمین تنگ کرنے کی وارننگ دی جاتی ہے ، کبھی ان کی بینائی چیلنج ہوتی ہے کہ انہیں ’’گمشدہ اوراق ‘‘ دکھائی نہیں دے رہے ۔ حقیقت جاننی ہو تو صرف یہی کافی ہے کہ پیشی سے پہلے کی لکھی ہوئی تقریر سامنے رکھ کر پڑھ دی جاتی ہے کہ فی الحال تو تاریخ ان ’’پرچیوں ‘‘ پر لکھی گئی ہے ۔میں چند چینلز پر یہ سن کر حیران رہ گیا کہ جس ’’بچے‘‘ کی مظلومیت کی مارکیٹنگ ہو رہی ہے وہ 42،42 سالہ ادھیڑ عمر آدمی ہے جس کی دو تین شادیاں اور ماشا اللہ خود کئی بچوں کا باپ ہے ۔سپریم کورٹ نے سو فیصد صحیح کہا کہ .....’’ایک شخص عزت سے بیٹھا ہے، تصویر لیک میں مسئلہ کیا ہے ؟‘‘تیز ہوائوں نہیں، حیائوں کا ایک طوفان ہے جس کی وولٹیج اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ کبھی عاجزی کبھی دھمکی، محاورہ تو ہے ’’رائی کا پہاڑ بنا دینا‘‘ لیکن یہ ایسے ماہرین فن ہیں جنہیں کےٹو اور مائونٹ ایورسٹ بنانے کیلئے کسی رائی کی بھی ضرورت نہیں ۔یہ تو عرق ندامت کے ایک قطرے کو بھی سمندر میں تبدیل کرکے اس میں بحری بیڑے چلا دیتے ہیں۔ فرمایا ’’ جمہوریت ہی نہیں ملک بھی خطرے میں پڑ جائے گا ‘‘ یہ حب الوطنی اور حب الجمہوریت میں لپیٹ کر دی گئی دھمکی سے کم نہیں اور اسی سوچ سے نجات ضروری ہے کہ فرد واحد خود کو ہی جمہوریت اور ملک سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ اعتزاز احسن نے کہا وزیراعظم بند کمرے میں پھنس چکے ہیں، انہیں دیوار توڑ کر باہر نکلنا ہو گا ۔دیوار توڑنے والے اس خطرناک خودکش مشورے پر مجھے منیر نیازی یاد آئے ۔اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھادیوار کے بعد اک اور دیواردریا کے بعد اک اور دریااسی لئے میں نے آغاز ہی اس جملے سے کیا تھا کہ اس وقت تک کسی کے مقدر پر تبصرہ نہ کرو جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لو۔ ’’پاناما ‘‘ کے ساتھ ساتھ بطور More over ’’حدیبیہ‘‘ اور ’’التوفیق ‘‘ وغیرہ بھی موجود ہیں ۔شکر ہے ابھی تک مری والے گھر کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ برطانوی نیوز ایجنسی کی یہ خبر جزوی طور پر درست ہے کہ پاناما کیس میں نواز شریف کی نااہلی سے ملک میں افراتفری پھیل سکتی ہے ۔ایسا ہوا تو ’’افرا‘‘ ن لیگ کا ہو گا اور ’’تفری ‘‘ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جمہوری قوتوں کی لیکن نیوز ایجنسی کے بیان پر آرمی چیف کا یہ بیان کہیں بھاری ہے کہ’’فوج ملک کو برائیوں سے پاک کرنے کیلئے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے ‘‘دعا صرف اتنی سی ہے کہ کسی معصوم اور بے گناہ پر کبھی آنچ بھی نہ آئے اور اگر کوئی واقعی مجرم ہو تو کسی قیمت پر بچنے نہ پائے چاہے آسمان گر پڑے ۔جو بھی ہو، ملک اور عوام کیلئے بہتر ہو ، خیر ہو!

 

.

تازہ ترین